حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ اور مجمع السلوک کے ملفوظات
حضرت مخدوم شاہ مینا قدس اللہ سرہٗ نویں صدی کے عظیم بزرگان دین میں ایک ہیں۔آپ کی حیثیت اس درخت کی طرح ہے کہ جب رہتاہے تو اپنے سائے سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتاہے اور جب ختم ہوجاتا ہے تو کچھ ایسے پھل چھوڑجاتا ہے جس سے لوگ سالہاسال تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔جب تک زندہ رہےخلائق کی ایک بڑی تعدادآپ سے فیضیاب ہوتی رہی اور آپ کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی آپ کے خلفاوتلامذہ سے حیرت انگیز طورپر فائدہ حاصل کیا۔
آپ کے ملفوظات باضابطہ طورپر نہیں ملتے لیکن آپ کے محبوب خلفامیں سے ایک حضرت مخدوم سعدخیرآبادی نے اپنی کتاب’’ مجمع السلوک والفوائد‘‘ میں جابجا آپ کے فرمودات وملفوظات کا ذکر کیا ہے ۔
حضرت مخدوم شاہ میناقدس سرہٗ کے ملفوظات پر نظر ڈالنے سے پہلے بہتر ہوگاکہ ایک نظر مجمع السلوک والفوائد پر ڈالتے چلیں جورسالہ مکیہ کے شرح ہونے کے باوجود کافی حد ملفوظات میناہ پر مبنی ہے۔مجمع السلوک کی بات کریں تو اُس جامعیت وخصوصیات اس طورپر سامنے آتی ہیں:
مجمع السلوک والفوائد:
یہ مختلف علوم ومعارف کا خزانہ ہےاور اس میں اہلِ تصوف کی دلچسپی کے ساتھ مختلف علوم اسلامیہ کے دلداروں کی دل بستگی کا سامان بھی موجودہے، مثلاً: تفسیر،حدیث،کلام،فقہ واصول فقہ، لغوی،نحوی ، صرفی اوربلاغت وغیرہ ہر فنون کا نمونہ اس میں بخوبی ملتاہے۔جہاں تک تصوف کی بات ہے تو یہ کتاب اس فن کا شاہکار ہونے کے ساتھ تصوف وسلوک کا خزانہ بھی ہے۔ نیزطالبانِ مولیٰ کے لیے قربِ ربانی کے حصول کا ایک مکمل کورس ہے جس کو زندگی میں اتار کر قربِ حق حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس میں علمی نہج پراقوال کی توضیح، تاویل، ترجیح اور صحیح وضعیف اقوال کے درمیان تفریق وتمییز کا خاص خیال رکھا گیاہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصادر ومراجع سے لگایا جاسکتا ہے جن کی تعداد پچاس سے متجاوزہے۔چنانچہ اس کتاب کا مطالعہ بہت ہی ذوق افزا اور ایمان پرور ثابت ہوگا۔(ان شاء اللہ)
اعتراف حقیقت:
داعی اسلام شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی صفوی نے برسوں پہلے’’ مجمع السلوک والفوائد‘‘کی غائبانہ عقیدت میں یہ شعر کہا تھا:
اگر ہے مجمع السلوک کسی کی ذات بے شکوک
تو بس فقط ابو سعید شیخ سعد شیخ سعد
یہ سادہ طور پر مدحیہ شاعری نہیں تھی، بلکہ مجمع السلوک کی عظمت بے پایاں کےاظہارکے ساتھ اس کی تحصیل و اشاعت کی آرزؤں کا شعری پیکر تھا، جو شعر کہے جانے کے کئی سالوں بعد عملی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ تلاش بسیار کے بعدخدا خدا کرکے ایک نسخہ رضا لائبریری رام پورسے اور دوسرا نسخہ خانقاہ کاظمیہ کاکوری سے حاصل ہوااور اب ترجمہ، تصحیح، تحقیق، تحشیہ اور اشاریہ کے طویل مرحلوں کو طے کرنے کے بعد یہ تاریخی ، علمی، روحانی اور تربیتی سرمایہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ حضرت داعی اسلام اسے تصوف کا انسائیکلوپیڈیا اور طالبین و سالکین کے لیے ایک جامع دستور العمل کا نام دیتے ہیں۔
اس میں دورائے نہیں کہ مجمع السلوک تصوف کا دستور العمل ہے،بلکہ حقیقت میں دیکھاجائےتو کتب تصوف میں اسے وہی درجہ حاصل دیا جانا چاہیے جو کتب فقہ میں ہدایہ کو حاصل ہے ۔لیکن افسوس کہ جس طرح سے عوام تک پہنچنی چاہیے تھی اس طرح سےنہیں پہنچ سکی۔ تاہم اپنے وقت کے عظیم بزرگوں نےاس سے استفادہ کیاہے،میرعبدالواحد بلگرامی صاحب سبع سنابل، محمد علی تھانوی صاحب کشاف اصطلاحات الفنون، شاہ تراب علی قلندر کاکوروی صاحب مطالب رشیدی ،اور قاضی ارتضا علی خان توباضابطہ اس کی تلخیص فوائدسعدیہ کے نام کی ہے۔ یہ جون ۱۸۸۵ء میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے چھپی۔عوام وخواص کے افادۂ عام کے لیے مخدوم شاہ میناہ قدس سرہٗ کچھ منتخب ملفوظات پیش کیے جاتے ہیں:
ملفوظات:
پیردست گیر قطب عالم فرماتے تھے:
۱۔رب تعالیٰ کی محبت تمام درجات واحوال میں سب سے بلند درجہ ہے۔ محبت الٰہی کو پانے کے بعد شوق وانس جیسے ثمرات محبت کے علاوہ کوئی حال نہیں ہےاورمحبت سے پہلے کوئی مقام نہیں ہے؛ کیوں کہ اس سے پہلے توبہ، ورع، زہد جوبھی ہے وہ سب محبت کے مقدمات ہیں۔
۲۔خلق عظیم یہ ہے کہ دونوں جہان سے ہاتھ اٹھالیاجائے اوراپنارخ مکمل طورسےاللہ تعالیٰ کی طرف کرلیا جائے۔
۳۔ شیخ کادل صیقل شدہ آئینے کی طرح ہے، اس پر حضرت رب العزت کافیض اترتا رہتاہے، وہ ذات، صفات،اسما اورافعال کی تجلیات سے متجلی ہوتا ہےاور اس طرح شیخ ہرلمحہ غیبی لطائف سے آراستہ ہوتا رہتا ہے۔جب مرید صادق مکمل ارادت کے ساتھ اپنے دل کوایسے آئینے کے سامنے لاتاہے توشیخ کا دل مریدکے دل پرعکس تجلی ڈالتا ہے اور تمام کمالات بغیرکسی کسب اور محنت ومشقت کے اس مرید کے دل میں اترجاتے ہیں،شرط یہ ہے کہ اس کا دل غیر یت کی کدورت سے پاک اور طبیعت کے زنگ سے صاف ہو اور اس کو اس کی استعداد کے مطابق وہ صفات و احوال ایک لمحے میں حاصل ہوجاتے ہیں، جو عمربھرکی ریاضت اور مجاہدے سے حاصل نہیں ہوپاتے۔
۴۔نیکیاں کرنے سےانسان جنت تک رسائی حاصل کرتاہے لیکن نیکیوں میں آداب کا لحاظ رکھنے سے خالق جنت تک رسائی حاصل کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ابلیس کےپاس اگرچہ نیکیاں تھیں لیکن ترک ادب اور أَنَا خَیْرٌمِنْہُ (میں افضل ہوں)کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے وہ مردود ہوگیااورحضرت آدم علیہ السلام جن سے لغزش صادر ہوئی تھی، ادب سے اور رَبَّنَاظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا(مولیٰ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کردیا)کہنے کی وجہ سے مقبول بارگاہ ہوگئے ۔
۵۔ اگرکسی نے کسی کودنیامیں وضوکاپانی دیاہوگااورپانی دینے والادوزخ میں ہوگا، وہ اس وضو کرنے والے کودوزخ کے باہر دیکھے گاتوپہچان لے گااوراس آشنائی کی بناپر اس سے شفاعت طلب کرے گا تو وضو کرنے والا اس کوجہنم سے رہائی دلائے گا۔
۶۔قرآن ،ایمان اور اسلام کاایک نور ہوتاہے اوروضوکا بھی ایک نور ہوتا ہے۔ حکایت ہے کہ خواجہ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں میں سے ایک مریدبا وضو تھے، جب وہ خلوت خانہ میں داخل ہوئے توایک نور ان کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہوا۔انھوں نے اسے دیکھ کر ایک نعرہ مارااوریہ کہتے ہوئےباہر نکلےکہ میں نے اپنے رب کو دیکھ لیا۔ خواجہ ابوسعید جو اِس راہ کے کامل تھے، ان کے احوال پر مطلع ہو گئے، ان کو آواز دی اور فرمایا: نادان!یہ تمہارے وضو کا نور تھا ، کہاں تم اورکہاں اس بارگاہ کانور؟
۷۔انسان کی تخلیق پانی اورمٹی سے ہوئی ہے اورانہی دونوں چیزوں سے دنیاکی آگ بجھائی جاتی ہے اور کل قیامت کے روز بہت امید ہے کہ مولیٰ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آخرت کی آگ بھی انہی دونوں سے بجھ جائے۔
۸۔فقیروہ ہے جو اس دنیاکی ملکیت سے اس دنیا میں اور عالم آخرت کی ملکیت سے اس عالم میں بےنیاز ہو، بلکہ کونین اس کی میزان فقرکے پلے میں اوراس کے بازارعدم میں ایک ریشے اورایک دانے کے بھی برابرنہ ہوں۔
پیردست گیرقطب عالم فرماتے تھے کہ میں جس زمانے میں حضرت مخدوم قوام الدین رحمۃاللہ علیہ کے روضے پر مقیم تھا،مجھے ظاہری اضطراب بہت زیادہ ہوتاتھا،بعض اوقات ایساہوتاکہ مسافرآجاتے، کھانا تھوڑاہوتا،میں کھانا سامنے لےکر آتا، چراغ درست کرنےکے بہانےچراغ بجھادیاکرتااوراندھیرے میں کھانے میں مشغول ہوتا، میں بھی کھانے میں ہاتھ ڈالتا۔ البتہ! کھانا نہیں کھاتاتھا تاکہ آنے والے سیرہوکر کھاسکیں۔ان کے ساتھ ہاتھ لگا کرشریک رہنے میں مصلحت یہ ہوتی کہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ کھارہاہوں،جب کہ میں ان کے ساتھ کھانانہیں کھاتا اوربھوکاہی رہ جاتا۔
پیردست گیرقطب عالم حضرت شاہ میناقدس روحہ کایہ بھی معمول تھاکہ بے وضوگفتگونہیں فرماتے اورنہ کبھی بے وضو سوتے۔فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جوشخص باوضوسوتاہے اس کے برابرایک فرشتہ سوتاہے اوروہ بندہ اس وقت تک نیندسے بیدارنہیں ہوتا جب تک کہ وہ فرشتہ یہ دعا نہیں کرلیتاکہ بارالٰہا!اس بندے کوبخش دے، یہ باوضو سویاہے۔
پیردست گیرنےیہ بھی فرمایاکہ ایک روز خواجہ قوام الدین رحمۃاللہ علیہ کے روضے پرچند مہمان آگئے،والدہ محترمہ اس وقت باحیات تھیں،میں نےجاکر عرض کیاکہ چندمہمان آگئے ہیں،ان کے لیے کچھ کھانا چاہیے، والدہ نے کہا: کھانامل جائے گا، جاؤ اور اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ۔جب رات بہت زیادہ گزرگئی اورکچھ نہیں آیاتومیں کھانے کی تلاش میں گیا۔دیکھاکہ والدہ تھوڑا ساآٹا گوندھ رہی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ جب آٹا اتنا ہی تھا تواس قدر تاخیر کیوں ہوئی؟ والدہ نے فرمایا: بیٹے !آٹااتناہی تھااورکوئی دوسری تدبیر بھی نہیں تھی اور تمہاری بہن کے سب بچے بیدارتھے، میں ان کوبہلاتی رہی یہاں تک کہ وہ سوگئے،اس کے بعد میں نے آٹا گوندھا ہے، اگر ان کے سامنے گوندھتی اورپکاتی تویہ اپنا حصہ لے لیتے اورمہمانوں کے لیے اتنا تھوڑا کھانا کفایت نہیں کرتا،پکانے میں تاخیر اسی لیے ہوئی۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو میں کھانالے کرآیا اورمہمانوں کوکھلادیا،البتہ! بچوں کے بھوکے رہنے کی وجہ سے دل بہت رنجیدہ ہوا۔
حضرت قطب عالم بارہافرماتے تھے کہ ان دنوں مجھ کو جوکشادہ دستی حاصل ہے،میراگمان ہے کہ یہ اسی رات کا صدقہ ہے اور فقرکی یہ روشنی والدہ کی خدمت کی بدولت ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں