سیرت طیبہ کا ہرپہلو نمونۂ عمل ہے

ہر ادوارمیں آپ کی دعوت کے اسلوب الگ رہے اور جب اخیر میں مکہ فتح ہوا اوراسلام کوغلبہ حاصل ہوگیاتوفتح مکہ کے بعد جو اصول وضوابط اور قوانین نافذکیے گئے وہی اسلامی قوانین آج بھی جاری ہیں اوراسلامی نظام کی بقااورحفاظت انھیں قوانین کے قیام ونفاذ میں ہے ۔
لیکن جب بھی کوئی مرد مومن، داعی ومبلغ دعوت وتبلیغ کے میدان میں نکلے تو یہ ضروری ہوگا کہ مرشداعظم نبی آخر الزماں ﷺ کی مکمل زندگی اس کے سامنے ہواورسیرت طیبہ کا کوئی بھی پہلواس کی نظرسے اوجھل نہ ہو۔ مرشداعظم ﷺ کی حیات طیبہ کی روشنی میں وہ داعی ومبلغ یہ طے کرے کہ کب اس کو خلوت اختیار کرنا ہےاور کب دعوت؟ کب اسلام کی خاموش تبلیغ کرنی ہے اورکب اعلانیہ؟کب اسے قریبی رشتے داروںمیں اللہ کا پیغام پہنچاناہے اورکب ساری کائنات کو اپنی دعوت کا مخاطب بناناہے؟کب ہجرت کرنی ہے اورکب صلح ومعاہدہ ۔
Related Article
رسول اللہ ﷺ کی مکمل زندگی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ اورنمونۂ عمل ہے۔ ایسا نہیں کہ ایک پہلو تو قابل عمل اور نمونۂ حیات ہے اوردوسرا پہلولائق عمل نہیں۔جب کہ اللہ کاارشاد ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (احزاب:۲۱)
خضرِراہ ، جنوری ۲۰۱۶ء
(ترتیب: مجیب الرحمن علیمی)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں