Gunah e Kabira Ahadees Ki Raushni Mein





گناہِ کبیرہ:احادیث کی روشنی میں
 جوشخص جس چیز کے ذریعے خودکُشی کرےگااُسے اُسی چیز کے ذریعے عذاب دیاجائےگا


جھوٹی قسم کھانا
 قسم کی تین صورتیں ہیں: ۱۔لغو ۲۔منعقدہ ۳۔غموس۔
 ۱ ۔لغو قسم وہ ہے جو بےکار اور بے مقصد کھائی جائے، اس کی صورت یہ ہے کہ کسی گزری ہوئی بات کوسچ جانتے ہوئے یا صحیح گمان کرتے ہوئے قسم کھانا،حالاںکہ وہ صحیح نہ ہو ، یا بلا ارادہ زبان سے قسم کے الفاظ نکل جانا ،جس کی نہ ضرورت ہو نہ مراد ،جیسےبعض لوگ گفتگوکے دوران ’قسم خدا کی‘ کہہ جاتے ہیں یا تکیہ کلام کے طور پر ان کے منھ سے ’’بخدا‘‘ یا’’ واللہ‘‘ جیسے الفاظ نکل جاتے ہیں ،اس سے قسم کھانے کا ارادہ نہیں ہوتا، اس طرح کی قسم میں نہ گناہ ہے اور نہ کفارہ ۔ 
۲ ۔منعقدہ وہ قسم ہےجو مستقبل میں کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے، تو جس کام کے کرنے کی قسم کھا ئے اگر وہ نہ کرے یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائے وہ کرے تو اس پر کفارہ دینا ہوگا ۔
 ۳ ۔ غموس وہ قسم ہے کہ کوئی جان بوجھ کر اللہ کی جھوٹی قسم کھائے،جیسے کہ کسی نےکسی کو گالی دی ہو، اور قسم کھا کر کہےکہ میں نے گالی نہیں دی ہے ،یا یہ کہ قسم کھا کر کہے کہ یہ سونا ہے، حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ چاندی ہے،اس طرح کی قسم کھانے کا مقصد کسی کا حق مارنا یا کسی کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے ، یا اپنی ذات کے لیے ناجائز فائدہ اٹھا نا ہوتا ہے ،یہ قسم انتہائی بدترین ہے ،اور یہ گناہ کبیرہ میں شامل ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر آیا، اور عرض کیا:
يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَاالكَبَائِرُ؟ قَالَ: الإِشْرَاكُ بِاللهِ، قَالَ:ثُمَّ مَاذَا؟قَالَ:ثُمَّ عُقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ، قَالَ:ثُمَّ مَاذَا؟قَالَ: اَلْيَمِيْنُ الْغَمُوْسُ، قُلْتُ: وَمَاالْيَمِيْنُ الغَمُوْسُ؟ قَالَ: الَّذِي يَقْتَطِعُ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، هُوَ فِيْهَا كَاذِبٌ۔(بخاري :باب اثم من اشرك بالله، ...)
ترجمہ:یارسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم) گناہ کبیرہ کیاکیاہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ اس نے عرض کیا ،پھر کیا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ والدین کی نافرمانی ۔اس نے پھرعرض کیا ،پھر کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جھوٹی قسم کھانا۔میں نے عرض کیا کہ جھوٹی قسم کا کیا مطلب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کسی شخص کا مال جھوٹی قسم کھا کر حاصل کرے۔
حضرت ابوامامہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:
مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِيْنِهٖ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ،فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيْرًا يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: وَإِنْ قَضِيْبًا مِنْ أَرَاكٍ۔( مسلم:باب وعيد من اقتطع حق مسلم ...)
 ترجمہ :جس نے کسی مسلمان شخص کا حق مارنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی اُسےیقیناًاللہ تعالیٰ جہنم میںداخل کرےگا، اور جنت سے محروم کردےگا ۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگرچہ وہ چیز معمولی ہی کیوںنہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ وہ پیلو کے درخت کا مسواک ہی کیوں نہ ہو ۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيْهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ، قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ: خَابُوْا وَخَسِرُوْا، قَالَ: الْمُسْبِلُ إِزَارَهٗ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهٗ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ، وَالْمَنَّانُ عَطَاءَهُ۔( نسائي،باب المنفق سلعتہ بالحلف الکاذب)
 ترجمہ: تین لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا ،نہ اُسے نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرےگا،ان کے لیےدردناک عذاب ہے ۔یہ سن کرحضرت ابو ذرنے کہا کہ تب تووہ خائب و خاسر ہوئے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ وہ تین لوگ یہ ہیں:
 ۱۔ تہبند(ٹخنے کے نیچے) لٹکانے والا،۲ ۔اپنا سودا جھوٹی قسم کھاکر بیچنے والا ،۳ ۔ کسی کوکچھ دے کر احسان جتانے والا 
 ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگی میں جھانکیں کہ جھوٹی قسمیں کھاناہماری زندگی میںکس قدرعام ہوچکا ہے ،اس پر توجہ دینے اور اس سے بچنےکی سخت ضرورت ہے ۔

ظلم وستم کرنا 
 شراب اور جواکی طرح دوسرں پرظلم وستم کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔آج ہم لوگ شراب اورجوا کوبڑاگناہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں لیکن دوسروںپر ظلم کرنا نہیں چھوڑتے،بلکہ ظلم کرنا گناہ بھی تصور نہیں کرتےاور بڑی بے باکی سےظلم کرنے پر اپنے لیےدلیل فراہم کرلیتے ہیںکہ فلا ںمجھ پر ظلم کر رہا ہے ، تو میں کیوں نہ اس پرظلم کروں ؟جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کے ظلم وجبرسے منع فرمایا ہے۔ 
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
لَا تَكُوْنُوْا إِمَّعَةً، تَقُوْلُوْنَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوْا ظَلَمْنَا، وَلٰكِنْ وَطِّنُوْا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوْا، وَإِنْ أَسَاءُوْا فَلَاتَظْلِمُوْا۔(سنن ترمذي :باب ما جاء في الاحسان والعفو)
ترجمہ:تم لوگ دوسروں کو دیکھ کر عمل نہ کرو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اِس کا عادی بناؤکہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اوراگر لوگ بُرا سلوک کریں تو تم ان پر ظلم نہ کرو ۔ اس حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً ظلم سے روک دیا کہ لوگ اگرچہ ہم پر ظلم کریں لیکن ہم ان پر ظلم نہ کریں،وہ اس لیےکہ ظلم حرام ہے۔
حدیث قدسی ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهٗ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوْا۔(صحيح مسلم :باب تحريم الظلم)
ترجمہ:اے میرے بندو! میںنے اپنے اوپر ظلم کوحرام کر لیا ہے اور تمہارے لیے بھی ظلم کو حرام کر دیا ہے ،اس لیے تم کسی پر ظلم نہ کرو ۔ 
حضرت اُمّ معقل اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَامِنْ أَحَدٍ يَكُوْنُ عَلٰى شَيْءٍ مِنْ أُمُورِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ قَلَّتْ أَمْ كَثُرَتْ فَلَا يَعْدِلُ فِيْهِمْ إِلَّاكَبَّهُ اللهُ فِي النَّارِ۔ (مستدرك ازحاكم،باب کتاب الاحکام) 
ترجمہ: جو بھی اس امت کے کسی اہم معاملے یا غیر اہم معاملے کا ذمہ دار ہو ا،اور اس نے انصاف نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں منھ کے بل ڈال دےگا ۔ اس حدیث میں ارباب اقتدار اور امرا وسلاطین کے لیےسبق ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ معاملات میں انصاف سے کام لیںاوراُن پر کسی بھی قسم کاظلم نہ کریں ،ورنہ جب قیامت میں عدالت قائم ہوگی تو اُس وقت ہر چھوٹی بڑی چیز کافیصلہ کیاجائےگااور ہر شخص اپنے کیے کا انجام دیکھےگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :
لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتّٰى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ۔(مسلم :باب تحريم الظلم)
 ترجمہ:قیامت کے دن تم سےحق داروں کے حقوق وصول کیے جائیں گے ،یہاں تک کہ بے سینگ بکری کابدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا ۔
 اس حدیث سے صاف واضح ہےکہ دنیا میں اگر کوئی کسی کا حق ظلماً مارتاہے توقیامت میں اس سےحق دارکاحق ضرور لیاجائےگا،یہ حدیث پاک ان لوگوں کے لیے بطورِخاص قابل عبرت ہے جو دوسروں کا حق کسی نہ کسی حیلےو بہانے سے ہڑپ لیتے ہیں اور اس پر اپنا قبضہ جمالیتے ہیں۔

حرام مال کھانا
حلال وحرام کے سلسلے میں آج کل ہم لوگ اتنے غیرمحتاط ہوگئےہیں کہ کبھی ہم اس تعلق سےسوچنابھی گوارا نہیں کرتے کہ ہم جو مال کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام۔ جب کہ احادیث کریمہ میں واضح طورپر فرمایاگیاہے کہ حرام کھانے والے لاکھ عبادتیں کرلیں، سب بےسود اور بے معنی ہے۔ چاہے جس قدر بھی صدقات و خیرات کرلیں کچھ کام آنے والے نہیں، اگرہم حرام خوری سے نہیں بچتے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنِ اشْتَرَى ثَوْبًا بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَفِيْهِ دِرْهَمٌ حَرَامٌ، لَمْ يَقْبَلِ اللهُ لَهٗ صَلَاةً مَادَامَ عَلَيْهِ۔(مسند احمد، مسندابن عمر،حدیث:۵۷۳۲)
ترجمہ:جس نے دس درہم کا کوئی کپڑا خریدا، اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا تھا تو جب تک اس کے بدن پر وہ کپڑا رہے گا اس کی نماز قبول نہ ہوگی ۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :
لَأَنْ يَجْعَلَ أَحَدُكُمْ فِي فِيْهِ تُرَابًا خَيْرٌ لَهٗ، مِنْ أَنْ يَجْعَلَ فِي فِيْهِ مَاحَرَّمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ۔(شعب الايمان، حدیث:۵۳۷۹،شاملہ)
 ترجمہ:تم میں سے کسی کا اپنے منھ میں خاک ڈالنا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اپنے منھ میں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزکو ڈالے ۔  
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كُلُّ جَسَدٍ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ فَالنَّارُ أَوْلٰی بِهٖ۔(شعب الايمان،حدیث:۵۳۷۵)
 ترجمہ:جو جسم حرام چیزوں سے نشو ونما پائے،وہ جہنم میں جانے کے زیادہ لائق ہے ۔ خود کشی کرنا اپنے آپ کوہلاک کرلینا، جیسےزہرکھالینا ،پھانسی پر لٹک جانا،یا بم سےاڑا لینا ،خود کشی کہلا تا ہے،یہ اسلام میں سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔
 حضرت جندب بن عبداللہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
كَانَ فِيْمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ بِهٖ جُرْحٌ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ سِكِّيْنًا فَحَزَّ بِهَا يَدَهٗ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتّٰى مَاتَ، قَالَ اللهُ تَعَالٰى: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهٖ، حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ۔(بخاري :باب ما ذكر عن بني اسرائيل)
ترجمہ:تم سے پہلے لوگوں ميں ايک شخص زخمی تھا،وہ اپنے زخم سے گھبرا گیا ،اس نے چھری لی اور اپنا ہاتھ کاٹ لیا ، اس کا خون بند نہ ہوا اوروہ مرگیا،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بندے نےاپنی جان کے بارے میں مجھ پرجلدی کی ہے ،میں نے اس پر جنت حرام کردی ہے ۔ معلوم ہواکہ خودکشی جنت سے محرومی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
مَنْ قَتَلَ نَفْسَهٗ بِحَدِيْدَةٍ فَحَدِيْدَتُهٗ فِي يَدِهٖ يَتَوَجَّأُ بِهَافِي بَطْنِهٖ فِي نَارِجَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا، وَمَنْ شَرِبَ سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهٗ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِجَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَرَدّٰى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهٗ فَهُوَ يَتَرَدّٰى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَاأَبَدًا۔( مسلم : باب غلظ تحريم قتل الانسان نفسه)
ترجمہ :جس نے خود کوکسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلیا تو جہنم میں اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا ،جس کو وہ ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا اور ہمیشہ جہنم میں ہی رہےگا ،اور جس نےزہر پی کر خود کو ہلاک کرلیا تو وہ اس کو جہنم میں ہمیشہ پیتا رہے گااور ہمیشہ جہنم میں ہی رہےگا،اور جس نے پہاڑ سے گرا کر خود کو ہلاک کر لیا تو وہ ہمیشہ جہنم میں گرتا رہے گا ،اوروہ بھی ہمیشہ جہنم میں ہی رہےگا ۔
اس حدیث میں دوباتیں قابل غور ہیں:
 ۱۔خودکشی کرنے والوں کوجہنم میں اُنھیں چیزوں سے عذاب دیاجائے جن چیزوں سےاُنھوں نے خودکشی کی ہوگی۔
 ۲۔ ’’ہمیشہ جہنم میں رہنے‘‘ سے مراد لمبی مدت تک جہنم میں رہناہے،نہ کہ ہمیشہ رہنا،بشرطیکہ خود کشی کرنے والے کا خاتمہ ایمان کے ساتھ ہواہو۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : 
مَنْ قَتَلَ نَفْسَهٗ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا، عُذِّبَ بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔(معجم كبير ازطبراني،حدیث:)
 ترجمہ: جو دنیا میں خود کو جس چیز سے ہلاک کرےگا اس کو اُسی چیز کے ذریعے عذاب دیا جائےگا ۔(جاری)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0