Asrar ut-Tauheed 01

Alehsan Media
0

اسرارالتوحید 
شیخ محمد بن منور
شیخ ابو سعید فضل اللہ بن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی علیہ الرحمہ پانچویں صدی کے مشہور بزرگ اور نظریۂ وحدۃ الوجود کے مبلغین میں سے ایک اہم ہستی ہیں۔ ان کی پیدائش خراسان کے میہنہ گاوؑںمیں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ وفات پائی ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید ‘‘ ان کی شخصیت اور ارشادات پر مشتمل ہے جو شیخ محمد بن منور نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کاترجمہ بنام’’اذکار السعید‘‘ مولانارکن الدین سعیدی نے کیا ہے جسے عام افادیت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اللہ کے لیے تمام تعریف ہے جس نے اپنے انوارکی تجلیات سے اولیا ء اللہ کے دلوں کوروشن کردیااوراپنے محبوب بندوںکی پوشیدہ قوتوں کواپنے رموزواسرارکاخزانہ بنادیا۔ ان کی عقلوں سے دبیز پردے کے حجابات کودورکردیا۔اس کے خاص بندے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پراوران کی آل واصحاب اوراعوان پرکثرت سے رحمتوں کانزول ہو۔
بے انتہاحمدوتعریف اورلامحدودشکراس ذات کے لیے جوعجیب وغریب مخلوقات کاپیداکرنے والاہے۔تمام پاکیزہ صفات اسی مالک کے لیے ہیں جس نے کسی فائدہ اور ضرورت کے بغیر ،صرف اپنے باکمال کرم وعنایت اوراپنی غیرمعمولی قدرت کے اظہارکے لیے دنیاکوحیرت انگیز مخلوقات کے ساتھ پیدافرمایا۔
ان میں سے ایک تمام انسانوں کے جدامجدحضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کی تخلیق ہے جن کواللہ نے ایک مشت خاک سے پیدا فرمایااورکئی برسوں تک اس چکنی گارانماگندھی ہوئی مٹی سے تیارشدہ نقش ’جسم‘ کوکئی برسوں کے لیے مکہ ا ورطائف کے درمیان رکھ دیا۔پھرجب مشیت خداوندی کے تحت اس نقش’ جسم‘ میں روح کے برداشت کی قوت پیداہوگئی تواللہ نے اس کو
’’نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ‘‘(میں نے اس میں اپنی روح پھونکی)کے زیورسے آراستہ کیااوراس مجسمہ کوانسان کے نام سے موسوم کیا۔
یہ بھی بات قابل غورہے کہ انسان،انس اورموانست ایک ہی مادے سے ہیں۔اس حکیم ازلی نے انسان اول (حضرت آدم)کوایک مونس اورہمنواکی ضرورت کااحساس پیداکیا، تاکہ تنہائی کی وحشت کومونس کے ہمراہ رہ کردورکرسکے۔اس لیے حضرت حواعلیہاالسلام( جوتمام نسل انسانی کی ماں ہیں) کوحضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پہلووالی پسلی سے ایک اچھوتی اوربے مثال ایجاد کی شکل میں پیداکیااورشہوت جو ہرجاندارکی خاص صفت ہے ان کے درمیان ودیعت فرمادیا، تاکہ اس خاص صفت کے ذریعے انسانی نسل کے فروغ کارشتہ مضبوط ہوجائے۔پھرزمین پرکتنے ہزارآدمی رونماہوئے ۔ان میں ہرکوئی کسی نہ کسی خوبی کامالک ہے۔ہرجماعت کسی نہ کسی خاص فن میں ماہر ہوئی اورہرقوم کی ایسی الگ الگ زبانیں وجودمیں آئیںجوایک دوسرے سے جداہیں۔ایک جڑکی بہت سی شاخیںہیںجوخالق حقیقی کے کمال قدرت پرظاہروباہرآیات ہیں : 
وَفِیْ کُلِّ شَیٔ لَہٗ آیَۃ
تَدُلُّ عَلیٰ اَنَّہٗ وَاحِد
ترجمہ:دنیاکے ہرذرے میں اس کی ایسی نشانی ہے جو اس کے ایک ہونے پردلالت کرتی ہے۔
اسی مالک حقیقی نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میںسے چندمنتخب نفوس کونبوت ورسالت کامقدس تاج پہنایا اوریہی جماعت ہے جو خالق ومخلوق،عابدومعبود کے درمیان برزخ بن گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کوعظمت کی اس بلندی پرفائز فرمادیاکہ وہ بظاہرمخلوق کے ساتھ مشغول نظرآتے ہیں لیکن حقیقت میں اللہ جل شانہ کی ذات وصفات میں مستغرق رہتے ہیں،تاکہ وہ نورنبوت کے ذریعے حق کی حقیقت سے فیض یاب ہوں۔پھراس حقیقت کی طرف عام مخلوق کی رہنمائی کریںاورانھیں گمراہی ا وربے دینی سے روکتے رہیں۔ نسل انسانی کوجہالت ودشمنی کے بے رحم سیلاب سے نکال کرنجات وامن کے ساحل پر اورشک وتذبذب کے جان لیوا جنگل سے بچاکریقین وعقل کی مسندوں پربٹھائیںاور بنی آدم کوحیوانیت کے مقام سے اٹھاکرانسانیت اورپیغام رسانی کے دائرے میں لائیں۔
اس کے بعد اولیائے کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی مقدس ہستیاں ہیں۔یہ لوگ راہ حقیقت میں انبیا ومرسلین علیہم الصلاۃ و السلام سے قریب تر ہیں۔گروہ اولیا اورطبقۂ انبیا کے درمیان اس سے زیادہ فرق نہیں ہے کہ نبی ایک ہی حال میں  بظاہرمخلوق کے ساتھ ہوتے ہیں مگرحقیقت میں وہ خالق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں،جب کہ مخلوق کے ساتھ ولی کی مشغولیت، حق کے ساتھ رابطے کے لیے کبھی حجاب ہوجاتی ہے۔(ولی ،نبی جیسے یکساں حال پر ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے )
دوسرافرق یہ ہے کہ نبی دعوت وارشادکے لیے مامورو مکلف ہوتا ہے،جب کہ ولی اس کامکلف نہیں ہواکرتا۔ اللہ رب العزت نے احسن طریقے سے اپنے کمال فضل وعنایت سے اپنی حکمت کے ذریعے انبیا سے الگ اولیاکا وجودبخشاہے۔
اس کاسبب یہ ہے کہ ہمہ وقت ہرپل ہردورمیں رسولوں کی بعثت اورضابطہ رسالت کانفاذ ممکن نہیں ،لیکن مقرب بندوں اوراولیائے کرام کاآناممکن ہے ۔اس میں حکمت یہ تھی کہ جب نسل انسانی اللہ کے ان مخصوص بندوں کے حالات، فرمودات اورمعمولات سے واقف ہوجائیں تب ان کے لیے ممکن ہوجائے کہ وہ خود کودنیائے فانی سے ہمیشہ رہنے والی دنیاکی جانب متوجہ کرسکیں اوران سب سے واضح ہوجائے کہ فانی دنیاکے علاوہ بھی ایک دوسری دنیاہے،آدمی کواسی جہان حقیقی کے لیے پیداکیاگیاہے تاکہ اس عالم میں رہ کر اس عالم حقیقی(آخرت)کے لیے رخت سفر کاانتظام کرسکے اور عالم حقیقی سے رابطے کی قوت حاصل کرلے،تاکہ اگرملائکہ کے درجے تک نہ پہنچ سکے توکم از کم جانوروں اورحیوانی صفات سے بلندترہوجائے- (باقی آئندہ)


Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !