ہومShahid Raza AzhariImam Ghazali: Sawanahi Khakah Imam Ghazali: Sawanahi Khakah Alehsan Media فروری 08, 2017 فہرست صفحہ اول حمد و مدح عرفانی مجلس (اداریہ)جس کی ضرورت تھی سورۃ فاتحۃ جنت میں کون نہیں جائے گا (ضیائے حدیث) طہارت کے فرائض (شرعی مسائل) شیخ ابوالحسن خرقانی کی تعلیمات (شہ پارہؑ اسلاف) اسرار التوحید (سلسلہ-1) خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہ (شخصیت) صراط مستقیم نیت سے ثواب حاصل کریں دعوت اور عام زندگی نفس کی پاکیزگی حجۃ الوداع انسانیت کی فلاح بیعت کیا ہے؟ تعلیم کا اصل مقصد امام غزالی : سوانحی خاکہ (خاص گوشہ) فاطمہ کی تسبیح (گوشہؑ خواتین) تصویر کائنات بچوں کی تربیت خواتین کی تعلیم کے اثرات حمد باری تعالیٰ اچھے بچے (بچوں کی دنیا) شاہ احسان اللہ محمدی صفوی (بزم طلبہ) ماں باپ بڑی نعمت ہیں سیاست اور امارت جز وقتی کورسیز (کیرئیر گائیڈس) کیا آپ جانتے ہیں؟ نغمات الاسرار فی مقامات الابرار (تبصرہ و تعارف) امام غزالی:سوانحی خاکہ مولانا شاہد رضا ازہری حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ ان کا شمار ایسی نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ صدیوں میں پیدا فرماتا ہے۔ان کی زندگی کا ہر لمحہ شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذرا ۔ان کی نورانی فکر و تخیل میں’’ اللّٰہ ھو‘‘کی آوازیں گونجتی تھیں ۔اللہ تعالیٰ نے امام غزالی کی زبان و قلم میں وہ قدرت عطا فرمایا تھا کہ جس کی نظیر دنیا میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ولادت باسعادت: امام غزالی کی پیدائش ملک’ خراسان‘ کے ایک شہر ’طاہران‘ قصبہ’ طوس‘ میں ۴۵۰ہجری مطابق ۱۰۵۲ عیسوی میں ہوئی ۔اصل نام محمد بن محمد بن محمد اور کنیت ابو حامد ہے۔ خاندانی پیشہ دھاگا کاتنا تھا جس کی بنا پر وہ غزالی کہلائے۔ تحصیل علم: والد مکرم باوجود کہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن علما اور صوفیا کی مجلسوں سے مستفیض تھے اورانھیں اولیاء اللہ کی تربیت حاصل تھی۔ چنانچہ موت سے قبل اپنے ایک دوست کو وصیت کردی تھی کہ وہ امام محمد غزالی اور ان کے چھوٹے بھائی احمد غزالی کواپنی نگرانی میں زیورعلم سے آراستہ کرائیں۔یوں امام غزالی علیہ الرحمہ نے نہ صرف اس وقت کے رائج تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کی اور خلق خدا کو فائدہ پہنچایابلکہ فقہ، اصول فقہ، حدیث،تصوف، منطق، علم کلام وغیرہ علوم میںایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ گیارھویں صدی میں ’’نیشاپور‘‘ اور ’’بغداد ‘‘علم کا گہوارہ مانا جاتا تھاجہاں دنیا کے گوشے گوشے سے طالبان علوم وفنون جوق درجوق آیا کرتے تھے۔جب امام غزالی کی علمی طلب نے زورمارا تو علاقے میں کوئی ایسا ادارہ نہیں پایاجو آپ کو علمی تسکین دے سکے۔ تب آپ نیشاپورپہنچے اوروہاں کی مشہور ’’جامعہ ‘‘ میں داخل ہوئے اورعلامہ ابولمعالی جوینی اورعلامہ ابونصر اسمٰعیل قدس سرہماسے مختلف علوم و معارف حاصل کیے ۔ حصول علم کے بعد لوٹ رہے تھے کہ راستے میں ڈاکوؤں نے اچانک حملہ کرکے ساراسا مان لوٹ لیا، یہاں تک کہ آپ کا وہ علمی کارنامہ بھی لے گیا جو برسوں کی محنت کا ثمرہ تھا۔ امام غزالی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ڈاکوؤں کے سردار کے پاس پہنچے اور کہا: تم میرا سارا ساز و سامان لے لو لیکن میرا علمی اثاثہ مجھے واپس کر دو۔ یہ سن کر سردار ہنسا اور یہ کہتے ہوئے وہ کتابچہ واپس کر دیا کہ: ’’واہ صاحبزادے! آپ نے جو کچھ پڑھا وہ اس کتاب میں رکھ دیا اور اپنے پاس کچھ نہ رکھا؟‘‘ سردار کے ان الفاظ نے امام غزالی کے دل پر پرگہرااثر ڈالا۔ انھوں نے اسی وقت اپنے دل میں یہ تہیہ کرلیا کہ جب تک اس علمی نوٹ کو حفظ نہیں کرلیتا ،چین سے نہیں بیٹھوں گااوردنیا نے دیکھا کہ امام غزالی نے اپنے اس عزم کو پوراکرکے ہی دم لیا۔بنابریں انھیں ’’حجۃ الاسلام‘‘کہا گیا۔ تدریسی خدمات: امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد ۴۷۷ ہجری میں سلطان نیشاپورنے امام غزالی کو وائس چانسلر مقررکیا اورچند ہی دنوںمیں امام غزالی نے وہ شہرت حاصل کرلی جسے لوگ برسوں میں حاصل کرپا تے ہیں۔بڑے بڑے علماا ور فضلا امام غزالی کی تبحر علمی کے قائل تھے۔ سلطنت سلجوقیہ کے خواجہ نظام الملک طوسی امام غزالی علیہ الرحمہ کی تعظیم بڑے ہی والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے۔ہمیشہ امام غزالی کی مدح خوانی اور دلجوئی کیا کرتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں ادنیٰ سی تکلیف امام غزالی کو نیشا پور چھوڑنے پر مجبور نہ کر دے اوروہ کسی اور ملک کی طرف چلے نہ جائیں، مثلاً: بغداد ، دمشق وغیرہ۔ ادھر مدرسہ نظامیہ کے ناظم و مہتمم یہ چاہتے بھی تھے کہ وہ ان کے ہاں چلے آئیں اور مسند درس و تدریس کو وقار بخشیں ،کیونکہ ان کے ادارے کا معیار کم ہو تا جا رہاتھا اور زبوں حالی کا شکار تھا۔ایسے میں صرف امام غزالی کی اکیلی ذات تھی جو’’مدرسہ نظامیہ‘‘ میں انقلاب لاسکتی تھی۔بالآخرایسا ہوا بھی کہ وائس چانسلر علامہ حسین بن علی طبری علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد نظام الملک کی گذارش پرامام غزالی’’بغداد ‘‘گئے اور وائس چانسلر کے اعلیٰ منصب کو قبول فرمایا۔ تصانیف: امام غزالی علیہ الرحمہ نے تقریباً پچہتّر (۷۵)کتابیں تصنیف کیے ہیں۔ان میں احیاء العلوم ، کیمیائے سعادت، منھاج العابدین، الاعتقاداورالمستصفٰی وغیرہ قابل قدر ہیں ۔ یہ کتابیں ایسی ہیں جن سے اپنے بیگانے سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں،یہاں تک کہ یورپی ممالک میں بھی یہ کتابیں کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ تصوف سے رغبت: چونکہ امام غزالی علیہ الرحمہ کی طبیعت میں تحقیق کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جب رسمی علوم سے آگے کی سیرکی کوشش کرتے تو گاڑی رکتی نظر آتی اور کئی طرح کے شکوک و شبہات ذہن میں ابھر آتے ۔چنانچہ اس علم کی تہہ تک پہنچنے کا پختہ فیصلہ کر لیااور جب اس سلسلے میں بے چینی بڑھی تواطمینان کی تلاش میں سارے مذہبی فرقوں کی کتابیں اور عقائد کو پڑھنا شروع کیا۔ فلسفہ اور علم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ امام غزالی پر ایسی حالت کا طاری ہونا فطری تھا،کیونکہ جسے علم حق کی تلاش ہوتی ہے، اس کا حل صرف اور صرف خدا کی بارگاہ میں ہی ہوتاہے،جہاں حق کا علم رسمی طور پر نہیں بلکہ تحقیقی او رمشاہداتی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ حضرت بایزیدبسطامی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم عنعنہ کے ذریعے علم حاصل کرتے ہو اورمیں براہ راست’’ حی و قیوم ‘‘ سے علم حاصل کرتاہوں۔ آخر کارامام غزالی نے تصوف کی طرف رخ کیا اور بزرگان دین اوراصفیائے کاملین ،مثلاََ: سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ، حضرت شبلی ، حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہم کے ارشادات وملفوظات کا مطالعہ کیا اورحضرت ابو طالب مکی، حضرت حارث محاسبی وغیرہ کی کتابیں پڑھیں تو پتہ چلا کہ تمام مسائل کا حل تصوف و سلوک کے اندر ہے۔ محض علم حاصل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، عمل کے لیے نفس کے مجاہدے کے ساتھ ریاضت بدنی بھی درکار ہے ۔ امام غزالی کے ذہن میں یہ بات ماہ رجب ۴۸۸ہجری میں آئی۔ تقریباً چھے ماہ کش مکش میں گذرگئے۔ جب کبھی راہ سلوک کا ارادہ کرتے نفس فوراًآڑے آجاتااور دل میں یہ خیال پیداکردیتاکہ کہاں شاہانہ زندگی اور کہاں فقیری۔ لیکن جب انسان کی طلب ،جنون کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اسے زمانے کے نشیب وفراز کیسے روک سکتے ہیں۔ کچھ اسی طرح امام غزالی کے ساتھ بھی ہوا۔ طلب صادق میں اس قدر دیوانے ہوئے کہ طبیعت دنیا کی شاہانہ زندگی سے اچاٹ ہوگئی۔ انھیں ایسامحسوس ہو نے لگا کہ اب زبان گنگ ہوجائے گی اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری نہ رہ سکے گا۔اس فکرمیں آہستہ آہستہ صحت بھی خراب رہنے لگی۔ آخر ایک دن راہ طلب میں نکل پڑے۔ قیمتی لباس کی جگہ بدن پر کمبل آگیا ۔ لذیذکھانے کی جگہ ساگ سبزی کھانے لگے۔ اسی وارفتگی کے عالم میں پہلے شام ،پھردمشق روانہ ہوئے اور پوری توجہ کے ساتھ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہنے لگے۔ بیعت:ادھراللہ رب العزت نے امام غزالی کی رہنمائی کی اور ان پرہدایت و عرفان منکشف ہونے لگے۔اسی دوران ایک مردکامل ابو علی فضل بن محمد فارمدی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو امام ابو القاسم قشیری( متوفی ۴۶۵ھ) ابوالحسن علی بن احمد خرقانی (متوفی ۴۲۵ھ) اورامام ابوالقاسم گرگانی رضی اللہ عنہم کے تربیت یافتہ تھے۔ امام غزالی نے اسی جلیل القدر اورعظیم شخصیت سے بیعت کا شرف حاصل کیااور انھیں کی نظر سعادت سے تصوف و سلوک کے ارفع و اعلیٰ منازل طے کیے، بلکہ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کو حضرت ابو علی فارمدی نے امام قشیری، امام ابو الحسن خرقانی اور امام ابو القاسم گرگانی سے حاصل کیے تھے وہ ساری چیزیں بیک وقت امام غزالی کو عطا فرما دی۔ سادگی اور یاد آخرت:حضرت امام غزالی نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ظاہری شان و شوکت سے اپنے آپ کو بہت دور کر لیا تھا۔ معمولی لباس پہنتے اور بڑے سادہ رہا کرتے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن طوسی علیہ الرحمہ نے ایک دن عرض کیا: آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے؟ آپ قوم کے رہنما و پیشوا ہیں۔انھوں نے جواب دیا: ایسے انسان کو کیا دیکھتے ہوجو دار فانی میں مسافر کی طرح مقیم ہے۔جب سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات گیتی پر مسافر کی طرح مقیم رہے اور کچھ مال و متاع جمع نہ فرمایا تو میری کیا حقیقت ہے۔ وصال : وصال کا واقعہ نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ وہ دل میں ان کی بزرگی کا نقش بھی ثبت کردیتاہے۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی امام احمد غزالی کا بیان ہے کہ جب میرے بھائی کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے مجھ سے فرمایا:’’میر ا کفن لاؤ تاکہ میں اپنے بادشاہ کی بارگاہ میں حاضری کی تیاری کروں۔میں نے کفن لا کر دیا اور وہ اسے لے کر بالا خانے پر چلے گئے۔ وہاں انھوں نے غسل کیا اور کفن پہن لیا۔ ہم بعد میں جب بالا خانے پر گئے تو وہ اپنے رب کی ملاقات سے شرف یاب ہو چکے تھے۔‘‘ اس طرح ۵۴ سال کی عمرمیں۲۴؍جمادی الثانی ۵۰۵ ہجری میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے 0 تبصرے اپنی رائے پیش کریں google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0