Insaniyat Ki Falah



انسانیت کی فلاح
عزیز اللہ بقائی

اعلان نبوت سے پہلے کا دور ذہن میں آتے ہی ایک ایسے سیاہ دور کا منظر سامنے آجاتا ہے جہاں چاروں طرف کفر ہی کفر اور فسق ہی فسق کابازار گرم تھا ۔کہیں شراب نوشی تو کہیں زنا کاری، کہیں جوا کھیلا جا رہا تھا تو کہیں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جا رہا تھا۔ہر کوئی بت پرستی میں مبتلا تھا۔چاروںطرف اندھیراہی اندھیراتھااور روشنی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایسے میںضرورت تھی ایک آفتاب کے طلوع ہونے کی جس کے نور سے سارا اندھیرا دور ہو جائے۔ آخر کا ر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور بنا کر دنیا میں بھیجا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے ساری دنیا روشن ہو تی چلی گئی۔ آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ۴۰ سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا جس نے کفر کے ایوان میں ایک زلزلہ برپا کر دیا۔
اوریہ ظاہر سی بات ہے کہ جب زلزلہ آتا ہے تو لوگ اس کی چپیٹ میں آتے ہی ہیں اور ایسا ہوا بھی۔ دھیرے دھیرے لوگ باطل سے حق کی طرف آنے لگے۔ عرب اقوام میں پھیلی ہوئی بدکاریاں بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ نہ صرف پوری دنیا میں حق کا بول بالا ہو گیا بلکہ دنیا کے زیادہ تر حصوںمیں اسلامی حکومت بھی قائم ہو گئی ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ محض۲۳ سال کی مدت میں برسوں سے پھیلے کفر کی دھجیاں آخر کیسے اڑ گئیں؟ کن وجوہات کی وجہ سے اسلام غالب ہوا؟ ذرا سا دھیان دیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کے پھیلنے کی جو خاص وجہ تھی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحسن اخلاق تھا۔اگر کوئی گالی دیتا، برا بھلا کہتا، تکلیفیں پہنچاتا ،پھربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے اور کچھ جواب دینے کی بجائے اس کے حق میں ہدایت کی دعا فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی ادا کے قائل ہو کرہی بڑے بڑوں نے اسلام کے آگے سر تسلیم خم کر دیااور اسلام کی سچائی پر ایمان لائے بغیر نہ رہ سکے ۔ پھر اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فانی دنیا سے تشریف لے گئے اور کچھ شر پسندوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی ناپاک کوشش کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بڑی سختی سے اسے روکااور اسلام کے نظام کو مضبوط کیا ،چنانچہ یہ عمل سلسلہ در سلسلہ چلتا رہا۔ ادھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے ماننے والوںمیں کچھ خرابیاں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ مسلمان اپنے حقیقی مقصد کوبھولنے لگے۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ بدمذہبیت کے شعلوں نے اسلامی چہرے کو جھلسا کر رکھ دیا جسے ہم آج اپنی نظروں سے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
اسلام کے اس زوال کے تعلق سے سوچا جائے کہ آخر اس کا سب سے بڑا سبب کیا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی تاریخ کا دروازہ کھولناہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو مخاطب کر کے ایک عمدہ فارمولہ دیااور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو ایسی اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جسے اگر مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو دنیا و آخرت میں تم کامیاب رہوگے،وہ دو چیزیں ہیں قرآن اور اہل بیت ۔ لیکن افسوس کہ دونوں میں سے کسی پر مسلمانوںکاعمل نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ: ان سے کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے تعلق سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیایا کہ:

’’کَانَ خُلْقہٗ القُرآن۔‘‘ یعنی بے شک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہے ۔
اس سے ایک اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جہاں ہم ایک طرف قرآن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں ساتھ میں اخلاق رسول پر بھی عمل کرنے کی طرف پیش قدمی کریں جو کہ مطلوب زندگی ہے۔
مختصر یہ کہ آج بھی انسان اگر نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور ان کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنانے کی کوشش کرے تو یقینا زندگی کے ہر موڑ پرکامیاب ہوتا نظر آئے گا۔ انھیں تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ عرب بدؤوں نے اپنی زندگی کے حسن میں اضافہ کیا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چل کر اپنے اجڑے ہوئے چمن میں بہار کو مرحبا کہا۔ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان عربوں کی زندگی کن آفتوں اور مصیبتوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتے تھے اور یوں جنگ کا سلسلہ سالہا سال تک دراز ہوتا رہتا جو اہل عرب کو انسانیت کی فہرست سے نکال کر بہت دور پھینک چکے تھے لیکن صرف ایک طریقۂ مصطفی کو اپنا کر انھوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ دنیا کی مسیحائی کرتے نظر آئے۔
ایک بارپھر وقت کے نامساعد حالات کے سبب آج انسانیت درد و کرب میں پھنسی تڑپ رہی ہے مگر اس تڑپ کو دور کرنے کی فکرکرنے والا اسلام کے سوا کوئی نہیں نظر آتاہے، اس لیے انسانیت کی فلاح و کامرانی کیلیے ضروری ہے کہ محسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور سنت حسنہ کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور جہاں تک ہو سکے تعلیمات نبوی ا ور ہدایات کے مطابق زندگی گذاری جائے۔ساتھ ہی اپنے اعمال و کردار سے احباب و اقربا اور پڑوسیوں میں اس پر عمل کرنے کی تحریک چلائی جائے تبھی دنیوی و اخروی کامیابیاںمل سکتی ہیں ورنہ نہیں، کیوں کہ:؎

طریق مصطفی کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی
اسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی 

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0