Khairabad Ka Ek Yadgar Safar

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

خیرآباد کا ایک یادگار سفر 
خادم محبوب اللہ بقائی

ایسے تو کئی بار خیرآباد شریف جانے کا شرف حاصل ہوا ،لیکن ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۶ء کا یہ سفر خاص ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی تھا۔ اس کی وجہ سیدنا مخدوم شیخ سعد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مجمع السلوک کی رونمائی تھی جو حقیقت میں آپ کے عرفان اور روحانیت کا چشمہ ہے۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ اس روحانی سفر کی ابتدا روحانی مقام خانقاہ عارفیہ اور روحانیت سے پر مخدومی حسن سعید صفوی، مولانا ضیاء الرحمن علیمی، مولانا ذیشان مصباحی ، ڈاکٹر مجیب الرحمٰن علیمی اورمولانا غلام مصطفیٰ ازہری وغیرہ کے ساتھ ہوئی۔ پورے سفر میںکتاب اور صاحب کتاب کا تذکرہ رہاجس نے اس مقدس بارگاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی جذب وکیف کا ماحول گرم کر دیا اور سفر کب پورا ہوگیا خبر تک نہ ہوئی۔ اب سامنے آستانہ تھا اور دل کی تڑپ اور ذہن وخیال میں مرشد کا کلام:
یہ تڑپ یہ بےقراری یہ سعید آہ و زاری
 ترے در پہ جو بھی ہوتا یہی اس کا حال ہوتا
پھر جب صاحب سجادہ نجم الحسن شعیب میاں اور ضیاء علوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس ملاقات نے دل کی تپش اور بڑھادی۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان کے دل میں بھی۔ع
 وہی آبلے ہیں وہی جلن ہے،
کوئی سوز دل میں کمی نہیں ہے
دوسرے روز بعد نماز جمعہ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۶ء کتاب کی رونمائی کا وقت قریب آیا تو ایک عجیب منظر سامنے تھا ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مخدوم پاک کے فیض روحانی کی بارش ہو رہی ہے اور ہم سب اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ رونمائی کے بعد ان لمحات نے پیاسوں کی پیاس کو بڑھایابھی اور اس کو بجھانے کے لیے مجمع السلوک کی راہ میں بھی لا چھوڑا کہ جو جتنا اس راہ میں آگے نکلے گا اس کی اتنی ہی پیاس بجھے گی لیکن صاحب دل کی پیاس اور بڑھ جائے گی۔ بس یہ ناچیز اسی پیاس کے ساتھ اپنے پیر دست گیر شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف لوٹ آیا اور پورے سفر میں صرف یہی دعا کرتا رہا کہ دل کی پیاس کم نہ ہو بڑھتی ہی رہے۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں