سورۂ فاتحہ
اشتیاق عالم مصباحی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن(فاتحہ)
ترجمہ: تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پروردگار ہے۔
اس آیت میں حمد، اللہ، رب اورعالمین کا ذکر ہے۔ ہر لفظ اپنے آپ میں بے پناہ معانی اور مطالب رکھتا ہے۔
حمد:
یہ لفظ خاص خدا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، حمد سے مراد اللہ عز وجل کی تعریف ہے۔مفسرین عظام کا کہنا ہے کہ اچھی خوبیوں پر تعریف کرنا خواہ نعمت کے بدلے ہو یا نعمت کے بغیر حمد کہلاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہر حال میں کرنا چاہئے خواہ اللہ نعمت دے یا نہ دے ،یہی کمال بندگی ہے۔ویسے دنیا میں جس چیز کو دیکھئے،سب میں نعمت خداوندی کے جلوے نظر آئیں گے،جیسے اگر کوئی شخص بظاہر کسی پھول کی خوشبو کی تعریف کرتا ہے یا کسی عالم کی تعریف کرتا ہے تو حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے،کیونکہ پھول کے اندرجو خوشبو اور عالم کے اندرجو علم ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے اوراس بات سے کسے انکارہوسکتاہے کہ ہر چیز کاخالق اللہ تعالیٰ ہے اور اسی کے فضل و احسان سے دنیا کی تمام اشیا معمور ہیں۔
کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ کی تعریف کے کچھ مخصوص اوقات ہوتے ہیں جبکہ یہ زندگی کے ہر لمحے میں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی وقت متعین نہیں،صبح و شام، اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی جاسکتی ہے۔
اللّٰہ:
لفظ اللہ اس ذات کے لیے خاص ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا فرمایا ہے ۔یہ لفظ تمام صفات و کمالات کا جامع ہے۔علما کے نزدیک اس کا مطلب ہے سب سے اعلیٰ وارفع،اور یہ سچائی ہے کہ اللہ کی ذات سے بڑا کوئی نہیں ہے ، نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے، قرآن مقدس میں ہے:
اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے ۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولادہے اورنہ اس کے برابرکوئی ہے۔
اس کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔اسے ہر طرح کی قدرت حاصل ہے وہ جو چاہے کرے مختار ہے، مگر یہ یاد رہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہوتے ہوئے بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا ، کسی کو ستاتا نہیں اور نہ کسی کا حق مارتا ہے۔اگر کوئی انسان کسی پریشانی میں مبتلاہوتا ہے تو وہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔
رب:
رب کا لغوی معنی ہے مالک ،پالنے والا، لیکن اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،کیونکہ یہی ذات حقیقت میں تمام مخلوقات کا پالنہار ہے۔ لیکن معمہ سمجھ میں نہیں آتاہے کہ ایک طرف تو ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ اپنے مالک کے بندے ہیں اور دوسری طرف اپنے مالک کے حکم کی نافرمانی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کیسی بندگی ہے ؟
عالمین:
عالمین ،عالم کی جمع ہے جس کا ایک معنی دنیا ہے جب کہ کچھ علما نے لکھا ہے کہ عالمین کا مطلب ہے: ’’تمام مخلوق‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے بے شمار عالم پیدا فرمائے ۔ بعض علما کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے زیادہ عالم پیدا کیے۔کچھ علما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار عالم پیدافرمائے ہیں۔ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چالیس ہزار عالم پیدا فرمائے جو مشرق سے مغرب تک وسیع و عریض ہیں ۔ حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے کہ جن ایک عالم ہے ، انس ایک عالم ہے اورزمین کے چار زاویے ہیں اور ہر زاویے میں پندرہ سو عالم ہیں۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی عالم پیدا فرمائے ہیں وہ تمام عالم ، عالمین کے دائرے میں شامل ہیں جن کا اندازہ لگانا ایک بندے کے بس میں نہیں۔
غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا ہر موجود عالم ہے اور ہر مخلوق عالم میں شامل ہے۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب:
’’فرعون نے کہا : رب العالمین کیا ہے ؟ (موسیٰ نے ) کہا وہ آسمانوں ، زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کا رب ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو۔‘‘ ( شعرا،آیت:۲۳ تا ۲۴)
اس آیت میں تمام آسمان و زمین اور ان کے درمیان ہر چیز عالم ہے ، جس کی جمع عالمین ہے۔
ان تمام تشریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حمد صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔اللہ رب العلمین کی ذات وصفات سب سے اعلیٰ وارفع ہے اور وہ سارے جہانوںکا مالک ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کسی کی بھی تعریف، ان چارا سباب کی بناپرکی جاتی ہے:
۱۔ وہ اپنی ذات وصفات میں کامل واکمل ہواورہرعیب سے پاک ہو۔
۲۔اس کے احسانات بے شمارہوں۔
۳۔مستقبل میں بھی اس کے احسان کی امید ہو۔
۴۔دل میں اس کے غیظ وغضب کا خوف ہو۔
اور یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی زیب دیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتاہے:
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(فاتحہ)
گویا اللہ اپنی ذات وصفات میں کامل واکمل ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(فاتحہ)
بندوں پر اللہ کا بے شمار احسان ہے کہ انھیں طرح طرح کی نعمتیں عطا کیں اور مستقبل میں بھی زندگی سے لے کر آخرت تک بندے اللہ تعالیٰ کے احسانات کے امیدوارہیں۔
مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(فاتحہ)
اللہ تعالیٰ سزا و جزا کا تنہا مالک ہے جسے چاہے گا عذاب دے گا اور جسے چاہے گا بخش دے گا۔
اس لیے اگر تعریف کا حق دار کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے کہ وہ تمام جہانوں کا مالک اور پالنہار ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں