Tabsirah: Naghamtul Asrar Fi Maqamatil Abrar (Mathnavi)

Alehsan Media
0


نام کتاب:نغما ت الاسرارفی مقامات الابرار(مثنوی)
نتیجۂ فکر:داعی اسلام شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی
صفحات:۱۲۸

قیمت :۱۰۰روپے
سال اشاعت:اگست ۲۰۱۱ء
ناشر:شاہ صفی اکیڈمی/خانقاہ عارفیہ،سید سراواں،الٰہ آباد(یوپی)
رکن الدین سعیدی


زیرتبصرہ کتاب کاسرورق سادہ مگرخوش نماودیدہ زیب ہے اور الحمدللہ کافی حدتک کتابت کی عام غلطیوں سے محفوظ ہے۔یہ کتاب ایک گراں قدر پیش لفظ،ایک پرمغزمقدمہ، ایک حمد،۳۲؍مختلف عناوین، ایک مناجات اورایک خاتمہ پرمشتمل ہے جبکہ ذیشان احمد مصباحی کاایک عمدہ حاشیہ بھی شامل ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’اس میں راہ سلوک کے مبتدین و متوسطین اور منتہین  سبھی کے لیے حصہ موجودہے،جوان کے ذوق وشوق کے مطابق اور فضل الٰہی سے ان کوحاصل ہوتارہے گا۔‘‘
اس کی تصدیق سرورق پر درج اس شعر سے ہوتی ہے :

ساز ہستی پردۂ الہام ہے
نغمہ تارِ نفس پیغام ہے
اس کتاب میں شیخ طریقت قدس سرہ نے اللہ کی وحدانیت ،حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کی شان بشریت،ان کی عظمت ورفعت ،علوم غیبیہ ،اطاعت وفرمانبرداری اورتواضع وانکساری کاتذکرہ اتنی خوش اسلوبی سے فرمایاہے کہ کوئی بھی باشعورانسان متأثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا ہے۔ساتھ ہی اولیاء اللہ کی صحبت ونسبت،شیخ کے آداب اورطالب کی ضرورتوں کوبڑے عام فہم اور شیریں ودلنشیں اندازمیں بیان فرمایا ہے، بطورنمونہ چند اشعار دیکھئے :
گر ہے توحید خدا تو بس یہی
کچھ نہیں ہے اور سب کچھ ہے وہی
از زمیں تا آسمانِ کبریا
بس خدا ہے بس خدا ہے بس خدا
آگیا اللہ کی جانب سے نور
جس سے روشن ہوگئی بزم ظہور
یوں محمد میں خدا ہے جلوہ گر
جیسے آئینہ میں آئینہ نگر
جو محمد مصطفی سے پھر گیا
در حقیقت وہ خدا سے پھر گیا
’’علم غیب مصطفی‘‘سے متعلق یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
وہ نبی حکم خدا سے سر بسر
غیب کے اسرار سے ہے با خبر
اللہ کیا نرالا معنی ہے
غیب کی باتیں بتانے والا ہے
اس طرح کئی مختلف فیہ مسائل کاحل آپ نے اس مثنوی میں بہت آسانی سے پیش کیاہے جس کوپڑھنے کے بعد ہر باشعورعالم اس کوتسلیم کیے بغیرنہیں رہ سکتا۔
اس کتاب کی سہل نگاری کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ جومسائل تصوف وطریقت عربی ،فارسی اوراردوکی کتابوں میںآسانی سے سمجھ میں نہیں آتے ہیں،وہ تمام مسائل داعی ٔ اسلام شیخ طریقت شاہ احسان اللہ محمدی صفوی قدس سرہ نے بڑے آسان زبان میں سمجھادیاہے۔
پروفیسرمسعودانورعلوی،صدرشعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ لکھتے ہیں:
’’زبان وبیان کی صفائی، بندش کی چستی،سلاست وبرجستگی اورسہل ممتنع اپنی مثال آپ ہیں۔تصوف کے بعض وہ دقیق مسائل بھی جوفلاسفہ ومتکلمین اورصوفیہ کے مابین مابہاالنزاع رہے،ان کوبھی بڑی سلاست وعام فہمی سے بیان کیاہے۔‘‘ مثلایہ اشعار ملاحظہ ہو:

جو تصوف سے مبرا ہوگیا
زندقہ میں وہ یقیناََکھوگیا
ہر کہ غافل شد ز مولیٰ یک نفس
در حقیقت کافر است وبو الہوس
ماہرین ادب کا ماننا ہے کہ اختصاروایجازمثنوی کی خوبی ہے ۔اس پیمانے پر اس کو پرکھا جائے تو یقیناشیخ طریقت کی یہ مثنوی لائق توجہ ہے۔اب تک کی اردوشاعری میں تصوف کے موضوع پر یہ پہلی مثنوی ہے۔ اس کوپڑھنے کے بعد یہی محسوس ہوتاہے کہ اس میں مولاناروم،شیخ سعدی،امیرخسرو،خواجہ میردرداور اصغر گونڈوی جیسے صوفی شعراکی شاعری سے عرق نچوڑکراس مثنوی میں گھول دیاگیاہے۔اگریوں کہاجائے کہ یہ مثنوی مجمع السلوک (تصنیف:شیخ سعدخیرآبادی قدس سرہ ) کی منظوم تلخیص ہے توقطعاًبے جانہ ہوگا۔اس میں عربی اورفارسی الفاظ کا برمحل استعمال بھی ماہرین فن کو اپنی جانب متوجہ کرتاہے،جیسے:
لاشک اللہ بے شک اللہ یاد کن
سینہ را از عشق او آباد کن
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ را ببیں
ہم یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیدِیْھِم چنیں
نیست موجودے بجز ہستی او
نور او در عبدہ و رسولہ
شاعری اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے لیکن اس نعمت کومحفوظ رکھنا ہر ایک کے اختیارمیں نہیں ۔یہی سبب ہے کہ شاعری کی دنیا میںکئی جماعتیں نظرآتی ہیں۔
ایک وہ جماعت جوشعرصرف شعرکی حیثیت سے کہاکرتی ہے۔اسے معانی ا ورمفاہیم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ایک وہ جماعت جوبامعنی شاعری تو کرتی ہے لیکن اس کاتعلق دین سے کچھ نہیں ہوتابلکہ صرف اورصرف دنیاوی مفادات پیش نظر ہوتے ہیں اورایک جماعت ایسی ہوتی ہے جواس خوش بیانی کوآلے کے طورپراستعمال کرتی ہے۔وہ اپنی شاعری میں دینی اسرارورموز کاانکشاف کرتی ہے اوراسے’’اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ۔‘‘کاحسین گلدستہ بناکر عوام الناس کے سامنے پیش کرتی ہے جس سے لوگ خوب خوب فیض یاب ہوتے ہیں۔پھریہ شاعری صرف شاعری نہیں رہ جاتی بلکہ وہ پندونصائح،جذب وشوق پیداکرنے والاضابطہ اورزندگی کے لیے بہترین دستورالعمل بن جاتی ہے۔چنانچہ ’’نغما ت الاسرار فی مقامات الابرار‘‘پڑھ کر صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ آخر الذکرجماعت سے تعلق رکھتی ہے اور دین کے اسرارکی معرفت حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین نسخہ ہے۔
المختصریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ شیخ کی یہ مثنوی سالکین راہ خداوندی کے لیے خواہ وہ مریدین ہوں یامتوسلین، سب کے لیے اکسیر ہدایت ہے،مثلاً:

مثنوی نغمات ہے وہ مثنوی
جس میں پوشیدہ ہیں اسرار خفی
طالبوں کے واسطے اکسیر ہے
اور مریدوں کے لیے یہ پیر ہے
جوپڑھے گا صدق دل سے بے گماں
وہ سعید ہوجائے گا حق آشنا

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !