اخلاق و کردار
نجیب الدین
آج ہر انسان بے قرار، پریشان حال اور بے سکون نظر آرہا ہے اور اپنی ان حالتوں کا ذکر دوسروں کے سامنے بھی کر رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ آخر یہ خستہ حالی، پریشانی، بے چینی اور بے قراری انسان کاپیچھا کیوں نہیں چھوڑتی؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں ،لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کے اصل مقصد کو فراموش کر دیا ہے اور آخرت کی فکرکواپنے دل سے نکال دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ۔ ہر محاذ پر ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے اورظلم و ستم کا نشانہ بنتا جا رہا ہے۔پھر بھی غفلت کی نیندسورہا ہے اوربازآنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔انسان توبہت سوچتا ہے کہ اسے چین وسکون کی زندگی میسر ہو،معاشرے اور سماج میں باعزت زندگی بسر کرے مگر اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں پر نظر نہیں کرتا اور اخلاق وکردار کی سدھار کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا ہے ،جبکہ اخلاق وکردار انسان کی بلندی میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔چنانچہ ایک عمدہ کردار کے لیے نیک صحبت اور صحت مندماحول کا ہونا بہت ہی ضروری ہے تاکہ انسان کا کردار پاکیزہ ہو سکے، کیونکہ انسان کردار و عمل، رفتار و گفتار کی درستگی اور پاکیزگی سے ہی عزت و عظمت حاصل کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مذہب اسلام میںصالح کردار کے ساتھ عمدہ صحبت پر بھی کافی زور دیا گیا ہے۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہما نے اپنے داماد حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا:اے مغیرہ! جس بھائی یا ساتھی کی صحبت تمھیں دینی فائدہ نہ پہنچائے ،تم اس جہان میں اس کی صحبت سے بچو تاکہ تم محفوظ رہو۔
اس نصیحت کامطلب یہ ہے کہ تمہاری صحبت یا تو اپنے سے بڑوں ا ور اچھوں کے ساتھ ہوگی یا اپنے سے کمتر کے ساتھ،اگر اپنے سے بڑوںا ور اچھوں کی صحبت اختیار کروگے تو اس سے تمھیں دینی اور دنیوی فائدہ پہنچے گا اور اگر اپنے سے کمتر کے ساتھ بیٹھوگے تو تم سے اس کو دین کا فائدہ پہنچے گا۔ اگر وہ تم سے کچھ حاصل کرے گا تو وہ تمہارا ایک دینی فائدہ پہنچانا ہوگا اور جو تم اپنے بڑوں سے حاصل کروگے وہ بھی تمہارا ایک دینی فائدہ حاصل کرنا ہوگا۔صحبت اور ماحول کا اثر واقعی انسان کے کردار پر بخوبی پڑتاہے۔ نیکوں کی صحبتوں کے سبب ہی اچھے برے میںفرق و تمیز کی صلاحیت پیداہوتی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ خداوندقدوس نے صدیقین اور صالحین کی صحبت اختیارکرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: آدمی اپنے دوست کے دین اور اس کے طور و طریقے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے وہ دیکھے کہ کس سے دوستی رکھتا ہے۔اگر اس کی صحبت نیکوں کے ساتھ ہے ،اگر چہ وہ خود نیک نہ ہو تونیکوںکی صحبت اسے نیک بنا دے گی اور اگر اس کی صحبت بروں کے ساتھ ہے ،اگر چہ وہ نیک ہے تو بروںکی صحبت اُسے برا بنا دے گی ،کیونکہ وہ اس کی برائیوں پر راضی ہے اور جو برائیوں پر راضی ہوتاہے وہ بہر حال برا ہے۔ نیکوںکی صحبت سے دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں اور بروںکی صحبت سے دنیوی و اخروی دونوں طرح کی زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔
علما اور صلحا کی صحبت سے انسان بہت کچھ حاصل کرلیتا ہے۔ اخلاق و کردار پر بھی اس کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے؟کہ ان کی بارگاہ میں رہنے والا عام سے عام انسان بھی پوری دنیا میں ہیرے کی مانند چمکنے لگتا ہے۔ ہر دور کے مشائخ اور صوفیا نے اپنے پیشواؤں کی صحبت اختیار کی اور اس کے سبب دنیا میں ایسی خوشبو پھیلائی کہ آج بھی لوگ اس خوشبو میں نہا رہے ہیں۔
غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: تم اللہ سے ڈرنے والے علما کی صحبت میں رہا کرو ،اس میں برکت ہے اور جو عالم کہ علم پر عمل نہیں کرتے ان کی صحبت اختیار نہ کرو،کیونکہ ان کی صحبت اختیار کرنے میں بد بختی ہے۔اس لیے انسان کوچاہیے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں اور بروں کی صحبت سے بچیں۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں