اسرارالتوحید
شیخ ابو سعید فضل اللّٰہ بن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی علیہ الرحمہ پانچویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ اور نظریۂ وحدۃ الوجود کے مبلغین میں سے ایک اہم ہستی ہیں۔ ان کی پیدائش خراسان کے میہنہ گائوںمیں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ وفات پائی ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید ‘‘ ان کی شخصیت اور ارشادات پر مشتمل ہے جو شیخ محمد بن منور نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کاترجمہ بنام’’اذکار السعید‘‘ مولانارکن الدین سعیدی نے کیا ہے جسے عام افادیت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ
حمدوثناکے بعد سیدالانبیاء قدوۃ الاصفیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ہستی،روح منور اورتربت عطربار پرہماری طرف سے پرخلوص مبارکبادیاںاورفیضان خیرکی سوغاتیں جوجان ودل کی گہرائیوں سے زبان کے ذریعے نکلتی رہی ہیں، اس وقت تک پہنچتا رہے جب تک آسمان وزمین کی حرکتیں رک نہ جائیں،اس کے بعد اللہ کی رحمتیں اورفیضان خیرکی سوغاتین آپ کے ان پاک اصحاب اوراہل بیت پرہوجوآسمان ہدایت کے ستارے اورمحفل رشد و عطاکی شمعیں تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک رہے جب تک شب وروز کی آمد ورفت جاری ہے۔ آمین یارب العالمین۔
سلطان طریقت،برہان حقیقت ابوسعیدفضل اللہ بن ابو الخیر میہنی قدس اللہ روحہ العزیزکے فرزند ابوطاہر کے فرزند ابوسعید کاپسربندۂ گنہگار محمدبن منور ان تحریرات کامؤلف ہے،اس طرح اپنی گفتگوکاآغاز کررہاہے کہ بچپن کی ابتدا اورجوانی کے آغاز سے ہی اس فقیر کا پختہ ترین ارادہ اس کارعظیم کی تکمیل پرمرکوز رہا کہ وہ اپنے دادا سلطا ن طریقت اوربرہان حقیقت ابوسعید فضل اللہ بن ابوالخیر قد س اللہ روحہ العزیز کے مبارک مقامات ومراتب اوربابرکت نشانات وشعائرجولائق قدر سانسوں کے ذریعے ظہور پذیرہوئے، فوائدکی جستجوکرکے ان کویکجاکرے اورمیں نے ایساہی کیا اور آں موصوف دادا نوراللہ مرقدہ کے پوتوں اورخاندان کے اکابرومشائخ سے اس باب میں معلومات حاصل کیں اوران کے سلسلۂ اسناد کی صحت میں اپنی ممکنہ کوشش کوصرف کیا۔
یہیں سے اس حقیقت کواچھی طرح ذہن نشیں کرلیجئے کہ شیخ کازمانہ دین کی دولت وشوکت کازمانہ تھااوران کادورشریعت وطریقت کے مجموعی شباب کادورتھا،اس وقت سعید میں عظیم ائمہ کی موجودگی کے طفیل عالم آراستہ تھا،اس لیے کہ وہ ہستیاں آسمان دین کاآفتاب تھیں اوریقین واذعان کے چرخ نیلی فام کا روشن ستارہ تھیں ،پھربزرگ ترین مشائخ کی موجودگی کی وجہ سے روئے زمین پر زیب وزینت کاپھبن تھا،اس لیے کہ وہ زمین طریقت کے خلل ناآشنا ستون تھے اوردنیائے حقیقت کے قطبوں میں ان کاشمارتھا،وہ صدق طلب اورصاف نیت رکھنے والے مریدین تھے،ان کی محبت میں خلوص وہمدردی کاجلوہ تھا،ان کے عظیم ارادے شریعت کی تڑپ وطلب اورجذبۂ حرص منازل طریقت پرگامزن ہونے کے سبب مالامال تھے۔
اس بنا پرکہ وہ اپنے عہدکے دائیں بازواوربابرکت اشخاص تھے اوراس بناپر کہ راہ حقیقت پرگامزن رہنے کے لیے ایک رہنمااوررفیق منزل ان کومیسررہے تاکہ اس کے حسن تعاون سے وہ حق جل جلالہ کی رضا کی طلب میں سرمست رہیں اور اس کی روشنی میںوہ نفسانی خطرات اوررحمانی الہامات و اشارات میں تمیز کرسکیں،ہاں ہاں! ان ہی مذکورہ وجوہات پرمبنی تقاضوں کے پیش نظر انھوں نے ہمارے شیخ ابوسعید قدس اللہ روحہ العزیز کے زیادہ سے زیادہ حالات ومقامات اورفوائد واشارات اورانفاس وقلبیات کو یادرکھا اوراپنے ایام ان کے ذکروبیان میں گزارتے رہے۔ ان کایہ شغف اورشیخ کے حالات کے ساتھ اہتمام، اس نتیجہ کا ایک بڑاباعث بن گیاکہ ہمارے خانوادے سے متعلق مشائخ نے ان کوجمع کرنے کے لیے کسی قسم کے غوروفکر کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی،نیزان تمام لوگوں کے قلوب شیخ کے افادات سے روشن تھے اورتمام کان ان کے تذکرے سے شادماں تھے اورتمام زبانوں پران کی شرح وبیان کی مہک تھی، اس بناپروہ کسی ایسے مرتب مجموعہ کے محتاج نہ تھے جواُن کوشیخ کے کل یابعض افادات کی تفصیل سے آگاہ کرتا۔ وجہ یہ تھی کہ شیخ کے ایسے تمام مقالات ومضامین خاص وعام کے درمیان مشہورتھے جس نے ان کوانھیں جمع کرنے سے فارغ کررکھا تھا،پھرنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کفار کی یلغار کاسانحہ اور خراسان کافتنہ پیش آگیا،اس فتنۂ جور وظلم کی یورش خراسان میں زوروں پرتھی،اس قدرکہ خراسان میں جوکچھ ممکن تھا، وہ ہوکررہااوروہ نمایاں غارت گری جسے ہم نے دیکھنا تھا،وہ خراسان میں دیکھ لیا۔اس کی وجہ سے مصائب وبلیات کا بے رحم رتھ، جسے ہم کھینچنے پر مجبورتھے اُسے کھینچناہی پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک گھڑی میں جوبلاوجہ زحمت اورتباہی وبے رحمی میہنہ اورباشندگان میہنہ پرٹوٹ پڑی، خراسان کے شہروں میں سے کسی میں بھی اس کاذراساعکس تک دیکھنے کونہ ملا۔
اس طرح ہمیں اورتمام اہل خراسان کومیہنہ کے علاقوں میں اس حدیث کی حقیقت کامشاہدہ ومطالعہ ہوگیا:
أشُدُّالْبَلَاءِ لِلْأنْبِیَاءِ ثُمَّ الْأَوْلِیَاءِ ثُمَّ لِلْأمْثَلِ فَالْأمْثَلُ۔
یعنی سب سے سخت مصیبتیں انبیا ومرسلین کوپیش آتی ہیں،ان کے بعد اولیا کو، ان کے بعد جواولیا سے زیادہ قریب اورپھران کوجوعزیز،ان اولیاء اللہ کے راستے پر گامزن ہو۔
اس طرح تبدریج بلا کازور اوراس کی یلغار کی شدت ان لوگوں کے حق میں ہلکی ہوتی جائے گی جوایمان و ریاضت میں اولیا ء اللہ اوران کے عزیزوں سے ہلکے ہوں گے۔
(باقی آئندہ)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں