Asrar ut Tauheed 03


 اسرارالتوحید
شیخ محمد بن منور 
شیخ ابو سعیدفضل اللہ بن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی علیہ الرحمۃ والرضوان پانچویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ اورنظریۂ وحدۃ الوجود کے مبلغین میں سے ایک اہم ہستی ہیں۔ ان کی پیدائش ’’خراسان‘‘ کے ’’میہنہ‘‘ گائوںمیں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ وفات پائی ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید ‘‘ ان کی شخصیت اور ارشادات پر مشتمل ہے جو شیخ محمد بن منور نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کاترجمہ بنام’’اذکار السعید‘‘ مولانارکن الدین سعیدی نے کیا ہے جسے عام افادیت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

ظلم وستم کی یہ ایک لمبی داستان ہے جس کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ صرف ’’میہنہ‘‘ کے اندرحضرت شیخ کے چھوٹے بڑے فرزندان اورمتعلقین میں سے ڈیڑھ سولوگ طرح طرح کے آ ہنی شکنجوں میں جکڑے گئے اورسخت تکلیف دہ اسلحوں کے ذریعے ہلاک کیے گئے اور بہت سے لوگ تہہ تیغ کردیے گئے،یہ تعداد دوسرے شہروں کے شہدا کے علاوہ ہے، اُن تمام برگزیدہ بندوں پراللہ تعالیٰ کی رحمت و کرم کاسایہ ہمیشہ قائم رہے۔اسی پرشیخ کے دوسرے صداقت پسنداحباب اوربے شمار رفقائے کارکے بارے میں بھی قیاس کر لینا چاہیے۔
اس طرح بہت سے بزرگان دین اوررہبران طریقت زمین کی گودمیں سوگئے،مسلمانوں کے ایمان واعتقاد اوردین اسلام کی عزت اس دور میں کم سے کم ترہوتی چلی گئی ،اوردین کے کام میں ر جعت پسندی کا زوربڑھ گیا، افراط وتفریط کی تمام حدیں ٹوٹ گئیں جس کے سبب دینی اموراورمعاملات میں حد درجہ خرافات کے دروا زے کھل گئے،یہاں تک کہ ائمہ دین اوررہبران طریقت کے دور کا خاتمہ شروع ہوگیا،لیکن اللہ رب العزت نے اپنایہ وعدہ پورافرمایاکہ:
’’أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا نَأْتِیْ الأَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ أَطْرَافِہَا ۔‘‘(سورہ رعد،آیت:۴۱)
ترجمہ:کیالوگوں کومعلوم نہیں کہ زمین پرہماراہی حکم چلتاہے۔
اس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ ارشادنبوی اپنی حقیقت کے ساتھ پوری طرح عیاںہوچکاہے کہ:
إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ اِنْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ۔
(بخاری؍کتاب العلم؍کیف یقبض العلم)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل ودماغ سے علم کو یوںہی نہیں ختم کرے گا،بلکہ علما کوموت کی وادی سے گزارکرعلم کواٹھالے گا۔
اے عزیز!قرآن وحدیث کی ان عبارتوں کوسمجھ لینے کے بعداس واقعہ پرغور کروکہ علم کی طلب باقی ہے اورلوگ طلب علم میں مصروف ہیں،لیکن علم کے حصول کے متعلق عقیدہ اوراس کے تقاضے کوخراب نیت اوربرے عمل نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیاہے اوراکثرمسلمانوںکے اندرمسلمانی کاصرف دعویٰ اورنام ہی باقی رہ گیاہے اورطریقت وحقیقت کے بارے میںان لوگوں نے صرف ظاہری رسم ورواج ہی پرقناعت کرلی ہے۔
مذکورہ بالادردناک صورت حال کے پیش نظرمجھ ضعیف کے دل میں اللہ کے فضل سے ایک جذبہ پیداہوا،اورمریدوں کی درخواست بھی اس کاسبب بنی کہ اپنے داداسلطان طریقت ،برہان حقیقت شیخ ابوسعید ابوالخیرقدس اللہ روحہ العزیز کے مضامین ومقالات اورحالات زندگی وروحانی ورثے کی شرح وتفصیل کے لیے ایک مجموعہ کتابی شکل میں تیارکیاجائے،تاکہ یہ کتاب راہ طریقت میں داخل ہونے کی رغبت کو اورزیادہ کردے اور حقیقت کی راہ پرچلنے والے سالکین کے حق میں یہ ایک رہبروپیشواکاکام کر سکے،اس تعلق سے یہ آیت ذہن نشین رہے کہ :
 وَإِنَّا عَلٰی اٰثَارِہِم مُّہْتَدُونَ۔
(سورہ زخرف، آیت:۲۲)
ترجمہ:اورہم اپنے بزرگوں کے نقوش قدم پرچل رہے ہیں۔
وہ لوگ جوصفائے قلب کی دولت سے مالامال ہیں اوراللہ تعالیٰ کی نظرعنایت کے خاص مستحق ہیں،ان کے تعلق سے ارشادہواہے کہ:
أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ۔
(سورۂ انعام،آیت:۹۱)
ترجمہ:یہ وہی لوگ ہیں جن کواللہ نے صحیح راہ پرگامزن فرمایاہے ان ہی کی پیروی کرو۔
واضح رہے کہ وقت کے بدل جانے ،غارت گری کے حادثے رونماہوجانے ،پے درپے لوٹ ماراورقتل وتباہی کے باعث ’’میہنہ‘‘ میں صورت حال اس حدتک جاپہنچی تھی کہ ہمارے شیخ قدس اللہ روحہ العزیزکی تربت اورآستانہ یعنی مشہد کے علاوہ حضرت شیخ کے کوئی آثاراورنشانیاںثابت ومحفوظ نہ بچی تھیں،اس وجہ سے بے تحاشاجدوجہد کرنے کے باوجود مطلوبہ مواد میں سے بہت مختصردست یاب ہو سکا،اور بکھری ہوئی چیزوں میں سے جوکچھ مل سکا،اسے محفوظ کرلیاگیا،ورنہ جوکچھ دل اوردماغ میں محفوظ تھا وہ مصیبت کی یلغار اور قتل وغارت گری کی وجہ سے فراموش ہوچکاتھا،اورواقعہ اس محاورہ کے مطابق ہوگیاتھاکہ: شُغْلِیْ الشَّعِیْرَعَنِ الشِّعْرِ شَعِیْرٌ۔ یعنی روٹی کی فکر نے مجھے شعرگوئی سے محروم کردیا۔
اور یہ بھی یادرہے کہ ہمارے شیخ قد س اللہ روحہ العزیز کی عمر ہزارماہ تھی ،جس کا مجموعہ ۸۳سال بنتا ہے۔دادامحترم نے وداعی(آخری) تقریب کے موقع پر اپنے مبارک کلمات میں ارشادفرمایاتھاکہ:
 ہماری زندگی کے ہزار ماہ مکمل ہوچکے ہیں،اب ہزارماہ کے بعدمزیدسلسلۂ حیات برقرارنہ رہے گا،مشکل یہ ہے کہ اس مدت کے مکمل حالات کوضبط تحریر میں کیسے لایاجاسکتاہے،یاان کومحفوظ رکھنے کی کیاصورت نکالی جاسکتی ہے؟
میراخیال یہ ہے کہ ایساکرنا امرمحال ہوگا،اس لیے کہ کسی شخص کے عمر بھر کے ارشادات وافعال اورنشست وبرخاست کوجوںکاتوں نقل کرناممکن نہیں،البتہ جوکچھ اس عاجزکے بس میں تھااور صلاحیت کاجو کچھ اس میں دخل تھا،وہ میں نے کیااور اس میںکوئی کوتاہی نہیں کی ،بلکہ میں نے اس میں اپنی کوشش کی آخری سے آخری پونجی بھی لگادی ہے اورمواد کی صحت میںاپنی تمام ترممکنہ صلاحیتیں صرف کردیں،موادکے جن جن حصوں میں روایتی خلل یااسنادی شبہہ تھا،اسے بے دریغ کتاب کے مضامین سے ختم کردیااور اُسے کتاب میں شامل نہیں کیا۔
(باقی آئندہ)



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0