چند صالح خواتین
حضرت رابعہ عدویہ علیھا الرحمۃ
حضرت رابعہ عدویہ اپنے وقت کی عظیم صوفیہ گذری ہیں جو نہایت متقی ا و رپرہیزگار تھیں،وہ بصرہ میں رہتی تھیں۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستی نے بھی ان سے فیض اٹھایاہے،وہ اکثرحضرت رابعہ عدویہ کے پاس جایا کرتے تھے، ان کی نصیحت سنتے اور دعا کی خواہش کیا کرتے تھے۔
ایک دن حضرت سفیان ثوری اُن کے پاس گئے، اپناہاتھ بلند کیااور یہ دعاکی:
’’ اے اللہ!میں تم سے سلامتی چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سن کرحضرت رابعہ عدویہ رو پڑیں ،حضرت سفیان ثوری نے پوچھا کہ تم کیوں روئی؟انھوں نے جواب دیاکہ مجھے تم نے رلایا ہے۔حضرت سفیان ثوری نے کہا وہ کیسے؟اس پر فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ دنیا کی سلامتی اس کا ترک کرناہے اور تم اس میں آلودہ ہو رہے ہو۔
حضرت رابعہ عدویہ فرماتی ہیں کہ: ہر چیز کا پھل ہے اور معرفت کا پھل خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے۔انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’میں خدا سے مغفرت طلب کرتی ہوں اس وجہ سے کہ اس استغفار میں میرا صدق کم ہے۔‘‘
حضرت سفیان ثوری نے پوچھا سب سے بہتر کون سی چیز ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ کاتقرب ڈھونڈھے،جواب دیا : یہ جان لے کہ بندہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے سوا دوسرے کسی کو دوست نہ رکھے۔
ایک دن حضرت سفیان ثوری نے ان کے سامنے کہا: وا حزناہ! یعنی اے غم! وہ کہنے لگیں جھوٹ نہ بولو! اگر تم غمناک ہوتے تو تم کو زندگی بھلی نہ معلوم ہوتی۔
حضرت فاطمہ نیشاپوری علیھا الرحمۃ
حضرت فاطمہ نیشاپوری بھی بڑی متقی اور پرہیزگار شخصیت کی مالکہ رہی ہیں۔وہ ملک خراسان کی رہنے والی تھیں اور وہاں کی عورتوں میں بڑی عارفہ اور زاہدہ تھیں۔
حضرت ابو یزید بسطامی قدس اللہ تعالیٰ سرہ نے بھی ان کی تعریف کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنی ساری عمر میں ایک مرد اور ایک عورت دیکھی ہے، وہ عورت فاطمہ نیشاپوری ہے۔میں نے کسی ایسے مقام کی اسے خبر نہیں دی جو اُس پر پہلے سے ظاہر نہ ہو۔
انھیں مکہ شریف کی مجاورہ بننے کا شرف بھی حاصل ہے۔ وہ اکثر بیت المقدس جاتی تھیں اور پھرلوٹ کر مکہ مکرمہ واپس آجاتی تھیں۔ حضرت ذوالنون مصری جیسی بزرگ ہستی نے بھی ان سے فیض پایاہے۔ایک دن حضرت فاطمہ نیشاپوری نے شیخ ذوالنون مصری کے لیے کچھ بھیجا،انھوں نے اس کو قبول نہ کیا اور کہا کہ عورتوں کی چیزوں کے قبول کرنے میں ذلت اور نقصان ہے توحضرت فاطمہ نے فرمایا: دنیا میں کوئی صوفی اس سے بہتر بزرگ نہیں کہ جو سبب کو درمیان میں نہیں دیکھتا۔
ایک دن شیخ ذو النون مصری سے پوچھاگیاکہ آپ نے کس کو اور کس گروہ میں بڑا بزرگ دیکھا ہے ،انھوںنے جواب دیا:ایک عورت مکہ مکرمہ میں تھیں جس کو فاطمہ نیشاپوریہ کہتے تھے۔وہ قرآن کے نہایت عمدہ معانی بیان کرتی تھیں، وہ فرماتی ہیں:
’’جو شخص اللہ کو دل میں نہ لائے، اس کی تعظیم دل میں نہ رکھے تووہ ہر میدان میں آئے گا اور ہر زبان میں کلام کرے گایعنی وہ حق و باطل میں تمیز نہ کرے گااور جس کے دل میں اللہ کی عظمت ہوگی اس کو اللہ تعالیٰ سچ کے سوا گونگا کر دے گا اور حیا واخلاص اس کے لیے ضروری کر دے گا۔‘‘
وہ یہ بھی فرماتی تھیں:
’’آج سچا متقی ایک ایسے سمندر میں ہے کہ اس کی موجیں(حوادث) اس پر پڑتی ہیں تووہ اپنے رب کو ایسا پکارتا ہے جیسا کوئی ڈوبنے والا،اپنے رب سے خلاصی اور نجات چاہتا ہے۔‘‘
وہ مزیدفرماتی تھیں:
’’ جو مشاہدہ کر کے اللہ کے لیے عمل کرتا ہے وہ عارف ہے اور جو ایسا عمل کرتا ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے تو وہ مخلص ہے۔‘‘
حضرت فضہ علیہا الرحمہ
حضرت فضہ یکتائے روزگار عابدہ اور زاہدہ تھیں اور اپنے معاصرین کے درمیان ایک اعلیٰ مقام رکھتی تھیں۔
شیخ ابو الربیع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک نیک بخت عورت کا حال سنا جو ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ مجھے ان کی کرامت کی شہرت کی وجہ سے ان کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، اس عورت کو فضہ کہا کرتے تھے۔
جب ہم اس کے گاؤں پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسی بکری ہے جس سے وہ شہداور دودھ دوہتی ہے۔ ہم نے ایک نیا پیالہ خریدا، اس نیک عورت کے پاس گئے اور اسے سلام کیا، پھر ہم نے کہا کہ آپ کی بکری دیکھنا چاہتے ہیں جس کی نسبت لوگ بڑا چرچا کرتے ہیں ۔وہ اپنی بکری کو لے آئی اور ہم نے اس پیالے میں دوہا تو دودھ اور شہد تھا۔
ہم نے ان سے پوچھا:یہ کیاماجرا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم فقیر لوگ تھے اورہمارے پاس ایک بکری تھی۔ عید کے دن میرے شوہرنے (جو ایک مرد صالح تھا )کہا کہ آج ہم اس بکری کی قربانی دیں گے ۔میں نے کہا کہ: نہیں، کیونکہ ہمیں قربانی کے ترک کرنے میں رخصت ہے اور خدا تعالیٰ ہماری حاجت کو جانتا ہے کہ اس بکری کی ہمیں ضرورت ہے ۔
اتفاقاً اسی رات ہمارے یہاں ایک مہمان آگیا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں مہمان کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،اٹھئے اور اس بکری کومہمان کے لیے ذبح کیجئے، لیکن اسے ایسی جگہ پر لے جائیں جہاں ہمارے بچے نہ دیکھ سکیں، کیونکہ اس کے ذبح ہونے پروہ روئیں گے۔تب وہ اس کو باہر لے گئے تاکہ دیوار کے پیچھے ذبح کریں۔
اچانک میں نے دیکھا کہ ایک بکری گھر کی دیوار سے کود کر اندر آگئی ہے ۔ میں نے سوچاشاید وہ بکری میرے شوہر سے چھوٹ کربھاگ نکلی ہے ۔ میں باہر نکلی تو دیکھا کہ میرے شوہر بکری کی کھال اتار رہے ہیں ۔ مجھے سخت تعجب ہوا ،اور میں نے یہ ساراحال اپنے شوہر سے بیان کردیا ۔ انھوں نے کہا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے بہتر عنایت کی ہو، کیونکہ ہم نے اللہ کے حکم پر عمل کیا اور مہمان کی خاطرکی ہے۔اس کے بعد کہا: اے فرزند! یہ بکری مریدوں کے دل میں چرتی ہے۔ جب ان کے دل اچھے ہیں تو اس کا دودھ بھی اچھا ہے اور ان کا دل بگڑا ہوا ہے تو اس کا دودھ بھی بگڑا ہوا ہوگا۔چنانچہ تم اپنے دلوں کو خوش رکھو۔
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے جو ’’مریدوں‘‘ کا لفظ کہا اس سے مراد وہ اور اس کا شوہر تھا، لیکن خود کوچھپائے رکھنے،لوگوں کے ذہن کو موڑنے اور مریدوں کے دل کو پاک رکھنے کی ترغیب کے لیے ایسا کہا۔
مطلب یہ ہے کہ جب ہمارے دل خوش ہیں تو جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی اچھا ہے، پس تم بھی اپنے دل کو خوش رکھو ، تاکہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ خوش رہے۔
(نفحات الانس،ص:۶۵۰،۶۵۵،۶۵۹)
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں