Deeni Aur Asri Uloom


د ینی اور عصری علوم
محمد ساجد عالم

ہر وہ انسان جو اپنے مقصد تک رسائی چاہتا ہے اسے کچھ نہ کچھ شرائط اور لوازمات سے گذرنا ہوتا ہے،ان شرائط و لوازمات کو پائے تکمیل تک پہنچائے بغیر اسے کامیابی نہیں مل سکتی ،جیسے نماز کی صحت کے لیے پاکی شرط ہے، پاکی حاصل کیے بغیر نماز مقبول نہ ہوگی۔
یونہی اللہ عز و جل نے انسان کوایک زندگی دی ہے اور دو نعمتیں، ایک دینی تعلیم اور دوسری دنیاوی تعلیم ،اب جو انسان دین و دنیا دونوں میں کامیابی چاہتا ہے تو اسے ان دونوں تعلیمات کی روشنی سے اپنی زندگی کو منور کرنا ہوگا۔ان کے بغیر نہ تو انسان کا دین آباد ہو سکتا ہے اورنہ ہی دنیا سنور سکتی ہے اور اگر ان میں سے ایک پر ہی اکتفا کر لیتا ہے، پھر بھی انسان کی زندگی ادھوری ہی رہے گی اور دوسروں کی مدد کا محتاج ہی رہے گا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان میں سے محض ایک ہی کو ترجیح دیتے ہیں ، یہ سوچ بھی غلط ہے اور اس سوچ سے باز رہنے کی ضرورت ہے،کیونکہ دونوں تعلیم اپنی جگہ جگہ اہمیت رکھتی ہیں اور دونوں  اپنی اپنی جگہوں پرمناسب ہیں۔ 
پہلے دینی تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں جس کے تعلق سے فرمان رسول اعظم  صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
 ایک دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 علم حاصل کرو اگرچہ اس کے لیے ملک چین کا سفر طے کرنا پڑے۔
 ان دو جگہوں پر علم سے مراد علم دین کا حصول ہے ، جو خدا کی معرفت اورمذہبی معاملات میں معاون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علم والے کے لیے بشارت دی ہے:
 تم میں سے جو شخص ایمان والے اور علم والے ہیں اللہ اس کے درجات کو بلند کرتا ہے۔اس سے جہاں علم دین کی فضیلت معلوم ہوتی ہے وہاں دینی تعلیم کی فرضیت کا پتہ بھی چلتا ہے،جبکہ دنیاوی تعلیم فرض نہیں ہے۔ البتہ اس سے جہاں بہت سے دنیاوی تقاضے پورے ہوتے ہیں وہاں کچھ دینی معاملات و امور میں بھی مدد حاصل ہوتی ہے،اس کے باوجود انسان محض دنیاوی علوم حاصل کرے یہ عقلمندی نہیں۔ان علوم کے سبب وہ ڈاکٹر، انجینئر،پروفیسر، سائنٹسٹ وغیرہ توبن سکتا ہے جو کہ انسانی زندگی گذارنے کے لیے معاون اور دنیاوی کامیابی کے ذرائع ہیں، مگر اس پر نگاہ رکھنی ہوگی کہ دین کے مقابلے دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ایک انسان ڈاکٹر بن کردولت کما سکتا ہے، انجینئر بن کردھن اکٹھا کر سکتا ہے، پروفیسر بن کر پڑھنے پڑھانے میں نام پیداکر سکتا ہے،لیکن جواس کا مقصد اصلی ہے،یعنی خداکا قرب حاصل کرنا،اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
 معرفت الٰہی کے لیے، دینداری کے لیے اور نیک صحبت کے لیے دنیاوی تعلیم کے مقابلے ،دینی تعلیم کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ جو چین و سکون اسلام کی نگری میں ملتا ہے وہ دنیا کی کسی نگری میں نہیں۔دینی تعلیم سے آراستہ شخص روحانی تسکین بھی حاصل کر سکتا ہے اورخدا کے عذاب سے محفوظ بھی رہ سکتاہے ۔ دنیاوی تعلیم والا نہ ہی خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی روحانی تسکین ۔ ہاں!دنیاوی علوم میں ماہر ہونے والا آسمان تک تو پہنچ سکتا ہے مگر دینی علوم کا حامل آسمان تو کیا آسمانے والے تک اپنی رسائی کر سکتا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم اگرچہ بری نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ دینی تعلیم کے مقابل میں پائیدار نہیں ہے ۔ اس لیے اگر کوئی دنیاوی علوم سے آراستہ ہو رہا ہو تواسے چاہئے کہ دینی علوم پر بھی توجہ دے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔آمین۔ 


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0