ایک بالی میں سودانے
مولانا مقصود احمد سعیدی
ہربا شعورانسان چاہتاہے کہ کسی بھی طرح اُسے نفع اور آرام ملتارہے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ زیادہ نفع اور دائمی راحت کے لیے تھوڑی بہت مشقت برداشت کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتا۔آج ہسپتالوں کی لائنیںلگی ہوئی ہیں، دنیاکے کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیے تودیکھیں گے کہ کوئی خوشی خوشی اپناپیر کٹوا رہاہے توکوئی پیٹ چاک کروارہا ہے، صرف اس امید پر کہ اگروہ تھوڑی سی تکلیف برداشت کرلے گا توہمیشہ کے لیے اُسے راحت میسر آجائے گی۔مریض اگرکڑوی کسیلی دواحلق سے نیچے اتارتا ہے توصرف اس امید پر کہ کسی طرح اس کامرض کا فور ہوجائے اور اپنی بیماری سے دائمی راحت پا لے،مالداروں پر نظر ڈالئے تو ان کا یہ حال ہے کہ اگرآج وہ ایک نئی اسکیم میں پیسہ لگا رہے ہیں تو کل ایک دوسری اسکیم میں اپنا مال ودولت ضائع کررہے ہیں، صرف اِس مید پر کہ دولت میں کچھ اضافہ حاصل ہو جائے۔
غرض کہ ہر شخص تکالیف کا سامنا کررہا ہے،کڑوی کسیلی دواؤں کااستعمال کررہا ہے اوراپنا مال خرچ کررہاہے تو صرف اس لیے کہ اُسے آرام حاصل ہو اورایک روپیہ خرچ کرکے ڈھیروں روپے کمائے ،لیکن کیا یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اُسے ہمیشہ کے لیے راحت مل جائے گی یا پھر اُسے دوگنامنافع حاصل ہوں گے؟نہیں ہر گز نہیں۔مگر قرآن واحادیث میں اس بات کی گارنٹی ہے کہ اگرکوئی اللہ کی راہ میں ایک دانہ لگائے گا تواللہ اُسے ایک کے بدلے میں سات سو گنا عطافرماتاہے اور پھر اللہ بندے کے اخلاص کے مطابق جتنا چاہتاہے اضافہ فرماتارہتاہے،ارشاد رباری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۲۶۱ (سورۂ بقرہ)
ترجمہ :ان کی کہاوت جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح ہے جس نے اُگائیں سات بالیں ،ہر بالی میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے ا ور اللہ وسعت والا علم والاہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:دِينَارٌ أَنْفَقْتَهٗ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهٗ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهٖ عَلٰى مِسْكِيْنٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهٗ عَلٰى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهٗ عَلٰى أَهْلِكَ۔(مسلم ،فضل النفقۃ علی العیال)
ترجمہ: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہو،اور ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو،اورایک دینار وہ ہے جس کو تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو،اور ایک دینار و ہ ہے جسے تم اپنے اہل پر خرچ کرتے ہو ،اُن میں سب سے زیادہ اجر اس دینا ر پرملے گا جس کو تم اپنے اہل پر خرچ کرتے ہو۔
یعنی بندہ دنیا میں لاکھ خرچ کرے،پوری دنیا کو کھلائے، پلائے اور سیراب کرے مگر اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے نہ ہوتو بیکارہے اور اس کا یہ خرچ کرنا خصوصاَ َاپنے اہل وعیال پر ہو تو یہ زیادہ بہتر اور ثواب کا باعث ہے۔
حضرت ابو مسعودبدری کا بیانہے:عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلٰى أَهْلِهٖ نَفَقَةً، وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا، كَانَتْ لَهٗ صَدَقَةً۔(مسلم،فضل النفقۃ)
ترجمہ : حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان جب اپنے اہل و عیال پر ثواب کی امید سے خرچ کرتا ہے تو یہ بھی اس کا صدقہ ہے ۔
یعنی اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے اور یہ نیت کرلے کہ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُسے ثواب عطافرمائے گا تو اس صورت میں اوربھی ثواب ہوگا۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ:هُمُ الْأَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ:فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ، فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ!فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي،مَنْ هُمْ؟ قَالَ:هُمُ الْأَكْثَرُوْنَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هٰكَذَا وَهٰكَذَا وَهٰكَذَا،مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ وَعَنْ يَمِينِهٖ وَعَنْ شِمَالِهٖ ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ، وَلَا بَقَرٍ، وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ، وَأَسْمَنَهٗ تَنْطَحُهٗ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتّٰى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ۔ (مسلم،باب تغلیظ العقوبۃ)
ترجمہ : میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،اس قت آپ کعبہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایاکہ رب کعبہ کی قسم!وہ لوگ خسارے والے ہیں۔ میں آکر بیٹھ گیا پھر بے چینی سے کھڑا ہوا ، اور عرض کیا :یا رسول اللہ!آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں وہ کون لوگ ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں ، سوائےاُن کے جو اِس طرح اس طرح یعنی آگے پیچھے دائیں بائیں خرچ کرتے ہیں اور ایسے سرمایہ دار بہت کم ہیں اور جو شخص اونٹ یاگائے یا بکریاں رکھتا ہو اور اُن کی زکوۃ نہ دیتاہو، قیامت کے دن وہ جانور پچھلے تمام دنوں سے زیادہ فربہ اور چربیلے ہوکر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے اور کھروں سے روندیںگے جب آخری جانور روند کر گزر جائے گا تو پھر پہلا روندنے کے لیے آجائے گا اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک یونہی عذاب ہوتا رہے گا ۔
اس حدیث پاک میں اُن مالداروںپر سخت ملامت کی گئی ہے جن پرزکاۃ فرض ہے ،لیکن وہ زکاۃ نہیں اداکرتے ہیں اور حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہیں۔دورحاضرمیں وہ مالدار سوچیںجن کے پاس موٹر،کاراور بسیں ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَصْلَتَانِ لَاتَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: البُخْلُ وَسُوءُ الخُلُقِ۔(ترمذی،باب البخل )
ترجمہ: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن میں دوخصلتیں اکٹھا نہیں ہوتیں ،ایک بخل اور دوسری بری خصلت ۔
اس حدیث میں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کو بخیل کہا گیا ہے ۔اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جس قدر میسر آئے اللہ کی راہ میں خرچ کریں ،تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں