Hafiz e Millat: Sawanehi Khaka


 حافظ ملت علیہ الرحمہ:سوانحی خاکہ
ابوزوبیہ

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جب کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اُسے دین حنیف کا عالم بنادیتا ہے اور اپنے مقربین میں شامل کرلیتا ہے۔ایسی ہی برگزیدہ شخصیات میں ایک بابرکت ذات حافظ ملت شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی ہے جنھوں نے نہ صرف علوم وفنون مصطفوی کے چراغ روشن کیے بلکہ ایک دنیا کو علم وعمل کے نورسے معموربھی کیا ۔
ولادت باسعادت
حافظ ملت علیہ الرحمہ کی پیدائش ۱۳۳۱ہجری مطابق ۱۸۹۵ عیسوی کو بھوجپورضلع مرادآبادیوپی میں ہوئی۔دادا عبدالرحیم صاحب نے مشہور بزرگ اور جیدعالم دین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نام پر آپ کا نام ’’عبدالعزیز‘‘ رکھا،اس امیدکے ساتھ کہ اُن کا پوتا بھی آگے چل کر دین حنیف کا عالم بنے گا اور مذہب کی خدمت کرے گا۔چنانچہ دادا صاحب کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا،اوردنیا نے اپنے سرکی آنکھوںسے دیکھا کہ کس طرح اس درویش کامل نے دین کی خدمت میں اپنا تن،من،دھن سب کچھ نچھاورکردیااور آخری دم تک دین براہیمی کی آبیاری میں لگے رہے۔
تعلیم کا آغاز
آپ نے پرائمری تعلیم گھر ہی پر حاصل کی اور مزیدآگے کی تعلیم کے لیے مرادآبادشہرچلے گئے،جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے خواجہ ہندکی نگری ’’اجمیر‘‘پہنچے جہاں ’’دارالعلوم معینیہ‘‘میں داخلہ لیا اور صدرالشریعہ مولانا حکیم امجد علی علیہ الرحمہ مصنف بہارشریعت کے زیرسایہ رہ کر تفاسیرواحادیث نبویہ کی تعلیم حاصل کی۔اس طرح انھوںنے امجدی چمنستان علم وفضل کے پھول سے اپنے نہاخانۂ دل کو معطر کیااور اکتساب فیض کے ذریعے معرفت کی منزلیں طے کیں۔
مبارکپورآمد
علوم وفنون کی تکمیل کے بعداستاذمکرم صدرالشریعہ مولانا امجدعلی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ مبارکپورچلے جاؤ، وہاں کے مذہبی حالات بدسے بدترہوتے جارہے ہیں۔اس پر حافظ ملت علیہ الرحمہ نے جواب دیاکہ میں ملازمت نہیں کرنا چاہتاہوں، یہ سن کر صدراشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں آپ سے ملازمت کے لیے کب کہہ رہا ہوں۔میں تو دین کی خدمت کے لیے آپ کو بھیج رہا ہوں۔یوں محض دین کی خدمت کا جذبہ لیے  حافظ ملت علیہ الرحمہ ۱۹۳۶ عیسوی میںمبارک پورتشریف لائے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
خدمات وکارنامے
مبارکپور پہنچنے کے بعدایک چھوٹے سے مکتب میں درس وتدریس کا آغاز کیا ۔پھر دارالعلوم اہلسنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کا قیام عمل میں آیا۔ایک طرف باضابطہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہا اوردوسری جانب دینی وتبلیغی کارہائے نمایاں بھی انجام پاتے رہے۔ جب حافظ ملت علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کا شہرہ قرب وجوارمیں ہواتوجوق درجوق طالبان علوم نبویہ مبارکپورکا رخ کرنے لگے اور عزیزی حلقۂ تدرس اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہونے لگااور پھر وہ تاریخی دن بھی آیا جب ۱۹۷۱عیسوی میں ’’الجامعۃالاشرفیہ مجوزہ عربک یونیورسٹی‘‘ کی سنگ بنیاد رکھی گئی،جسے مایہ ناز ہستیوں اور  یکتائے روزگار شخصیات کے مقدس ہاتھوں نے انجام دیا۔ حالانکہ وسائل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مشکل ترین قدم تھا مگر جن کے حوصلے ہمالہ سے بھی زیادہ بلندہواور یقین محکم ہو جو جہدمسلسل کا عادی ہواور عمل پیہم کا پیکر ہوتواُن کے لیے دشوارترین کام بھی آسان سے آسان تر ہوجاتاہے ، کیونکہ وہ قسمت کا شکوہ کرنے کی بجائے اللہ پہ بھروسہ رکھتے ہیں اور ہمت و لگن سے کام لینے میں یقین رکھتے ہیں،پھر اس پران کا ایمان ہوتا ہے:؎
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کیسا
ضرب مرداں سے اگل دیتا ہے پتھرپانی
 یہی وہ سبب تھا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کا یہ جرأت مندانہ عمل دیکھ کربڑے بڑوں کو پسینہ آگیا، جہاں اپنے لوگوں نے سراہااور حوصلہ دیا تو معاندین اور دشمنوںنے بھی ہمت ولگن کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ جب حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ’’الجامعۃ الاشرفیہ مجوزہ عربک یونیورسٹی‘‘ کا اعلان کیا توکچھ    نکتہ چینوں نے مذاق اور استہزاکے طورپرقاری محمدطیب مہتمم دارالعلوم  دیوبندسے اس کا بات تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ محدود وسائل کے باوجود اتنا اونچا خواب دیکھ رہے ہیں۔یہ سن کر قاری محمدطیب صاحب نے برجستہ کہا کہ میں حافظ عبدالعزیز صاحب سے واقف ہوں اور مجھے پورایقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنے مقصدمیں ضرورکامیاب ہوجائیں گے اور آج دنیا اپنے ماتھے کی آنکھوں سے ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے ۔’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کی پرشکوہ اور فلک بوس عمارتیں،سنٹرل لائبریری اور عظیم الشان ’’عزیزالمساجد‘‘  کے پاکیزہ میناریں دعوت نظارہ دے رہے ہیں،جہاںتشنگان علوم وفنون اپنی علمی پیاس بجھارہے ہیں اورپھروہاں سے فارغ شدگان علماوفضلا دینی وعلمی،اصلاحی وتبلیغی خدمات کا انمول فریضہ عالمی سطح پر انجام دے رہے ہیں،جن کی سرگرمیاں آج غیرمعمولی صورت اختیارکرچکی ہیں۔
اخلاق وعادات
حافظ ملت علیہ الرحمہ نیک خصلت اور ملنسارطبیعت کے مالک تھے۔چنداخلاقی خوبیوں میں سے ان کی ایک اخلاقی خوبی یہ تھی کہ ان سے جو بھی ایک بارملتا وہ ان کا دیوانہ اور گرویدہ ہوجاتا۔سب سے اپنائیت بھرے لہجے میں گفتگو کرنا ان کا شیوہ تھا۔طلبہ کے ساتھ اس قدرشفقت ومحبت سے پیش آتے کہ ہر کوئی یہ گمان کرتا تھا کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ سب سے زیادہ اُن ہی سے لگاؤ رکھتے ہیں،مانواپنے بیٹے جیسا سلوک کرتے تھے۔ہر ضرورت مندوںکی حاجت برآری ان کی فطرت تھی،نہ کسی کو جھڑکتے اور نہ ہی کسی کو کبھی ڈانٹ پھٹکار کرتے،بلکہ نہایت نرم دلی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ وعدہ خلافی سے سخت نفرت تھی،اس لیے جس کسی سے وعدہ کرتے اورجوبھی وعدہ کرتے اُسے ضرور پوراکرتے،مثلاََ: کسی پروگرام میں شرکت کا وعدہ فرماتے توضرور پہنچتے ۔ہاں! بالفرض عذرشرعی ہوجاتی تو اُسے خبرکرادیتے ،یا پھر اپنا کوئی نائب یا نمائندہ روانہ فرمادیتے ۔اسی طرح چھوٹے بڑے اور امیرو غریب سب حافظ ملت کی نگاہ میں یکساں تھے۔کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں تھی ۔سب سے ملتے اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے۔ امیرکے گھر بھی جاتے اورغریب کے بھی،شہری کے دولت کدے پر بھی جاتے اور دیہاتی کے غریب خانے پر بھی۔اصاغر نوازی کے ساتھ اکابرین کے احترام میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں  کرتے۔گویا حدیث رسول:لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا۔یعنی جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوںکی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ،کی عملی تفسیر تھے۔ 
اتباع شریعت
حافظ ملت علیہ الرحمہ نہایت متقی اور پرہیزگارتھے۔ اُن کی پوری زندگی شریعت محمدیہ کا آئینہ دارتھی۔ان کا ہرہر قدم اتباع شریعت میں اٹھتا تھا۔خلوص وللہیت ،دینداری، تقویٰ شعاری اور تواضع وانکساری اُن کا طرۂ امتیاز تھااور یہ شریعت کی اتباع کا ہی اعجاز تھا کہ ۱۹۸۰ عیسوی میں فوٹوکے بغیرحرمین شریفین کی زیارت وحج سے مشرف ہوئے۔اس سے بڑی اتباع شریعت کیا ہوسکتی ہے کہ حج جیسے عظیم عمل کو مؤخر کرتے رہے مگر سنت کے خلاف جانا پسندنہیں کیا ۔اسی پر بس نہیں جس کسی کو بھی شریعت کے خلاف کام کرتے دیکھ لیتے فوراََتنبیہ کرتے، مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مسلمانو!تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبدخضریٰ ،تمہارا مقصودوہی تاجدارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔تمہاری مشکلات کا حل انھیں کی نظر کرم اوراشارۂ ابروپر موقوف ہے۔تمہارے مقاصدکا حصول انھیں کی تعلیم پر عمل ہے جس کو مسلمان فراموش کرچکے ہیں۔‘(ارشادالقرآن)   
وطن سے محبت
حافظ ملت علیہ الرحمہ جہاں ایک انقلابی فرد،حسن اخلاق سے متصف اور اتباع شریعت وسنت میں منفردویکتا  تھے وہیں ایک سچے محب وطن اور وطن دوست شہری بھی تھے۔ ۱۹۴۷ عیسوی کی پرآشوبیت سے کون آگاہ نہیں ہے۔ملک کا گوشہ گوشہ افراتفری کا شکارتھا،ایسے میں حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اپنی جوانمردی ،بے باکی اور وطن دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے قوم کو سرعام آزادی کے حصول کا پیغام دیا اور انگریزوں کو ملک سے نکال باہر کرنے پر زوردیا تھا ،پھر جب ملک تقسیم جیسے مشکل مراحل سے دوچارتھا،بڑے بڑے علمااور دانشور متزلزل نظرآئے،لیکن اس نامساعدحالات میں بھی حافظ ملت    علیہ الرحمہ ثابت قدم رہے اور وطن دوستی کی رسی کو بڑی مضبوطی سے تھامے رکھا۔مبارکپورکے علاوہ دیگر مقامات پر جاجاکر تقریریں کیں اور حب وطن کا انمول درس دیتے ہوئے ملک کی سلامتی اوربقاپر زوردیا،اپنی ایک تقریرمیں فرماتے ہیں:
’’ہمیں اس ملک میں رہنا ہے اور اس عزم وحوصلہ کے ساتھ کہ ہمارے اسلامی شعائرکے تمام گوشے حسب سابق قائم ودائم رہیں گے اورمستقبل میں دین حنیف اور اس کے ارکان پر کسی بھی حملے کا مقابلہ یہیں رہ کر کرنا ہے۔ہندوستان ہمارا وطن ہے۔اس کے اندر ہونے والی ہر بدعنوانی کو ہمیں خوداپنی کمزوری تصورکرناہوگا۔وطن کا سچاشیدائی وہ ہے جو اس کے ہر غلط اقدام کو اپنی غلطی سمجھ کر اصلاح کی کوشش کرے تاکہ غیرممالک کی نظرمیں ملک ووطن کا وقارمجروح نہ ہو۔‘‘(اشرفیہ کا ماضی وحال)
وصال
اللہ تعالیٰ کا یہ قول برحق ہے کہ:ہر جان کو ایک نہ ایک دن موت کے پل سے گذرناہے ،آخر ایک دن قوم مسلم کے مربی،زندہ دل بزرگ،صوفی باصفااور اخوت ومروت کے علمبردارحافظ ملت علیہ الرحمہ دنیاکی نگاہوں سے روپوس ہوگئے اور یکم جمادی الآخر ۱۳۹۶ ہجری مطابق ۱۹۷۶ عیسوی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔




0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0