اسلام اور تجارت

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0


شاہد رضا ازہری 

 اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی گذارنے کے لیے بہت سارے اسباب پیدافرمائے ہیں ان ہی اسباب میں سے ایک سبب تجارت بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے تجارت میں بھی اپنا فضل تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام ، صحابہ،تابعین اورتبع تابعین نے تجارت کا پیشہ اختیارکیا اور طلب معاش کے لیے تجارت اور صنعت و حرفت میں مشغول رہے۔ اب ہرمسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب وہ اسباب زندگی کی تلاش کرے تو اُن اسباب و ذرائع کو دیکھے اور غور و فکر کرے کہ واقعی ان کا پیشہ انبیائے کرام اور صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کے بتائے ہوئے دستور اوراصول کے مطابق ہے یا نہیں، اگر وہ تجارت اسلامی قانون کے دائرے میں ہوتو اُن اسباب کا استعمال کیا جائے گا اور اگر شریعت اسلامیہ کے دستور کے مخالف ہو تو اُسے چھوڑ دیا جائے گا، کیونکہ اُن نفوس قدسیہ نے تجارت کر کے بتایا کہ تجارت کیسے کی جاتی ہے اور اُن کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ؟بغوردیکھیں تو اُن کے مقاصد کچھ اس طرح ہیں کہ :سامان تجارت کے ذریعے اللہ کے بندوں سے ملنا اورا خلاق حسنہ کا مظاہر ہ کرنا ،امن و سلامتی کا پیغام پہنچانا ، اسلام کی دعوت دینا ، غربا، مساکین اور فقرا کی پرورش کرنا ۔صحابۂ کرام جومال میدان جنگ میں حاصل کرتے تھے اس کو کمزور و ناتواں پر خرچ کردیتے تھے۔ وہ تجارت مال و دولت جمع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ پوری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے کیا کرتے تھے۔کسی بھی ذی علم سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ چھپی ہوئی نہیں ہوگی کہ جب صحابۂ کرام وہاں داخل ہوئے تو تاجر کی شکل میں داخل ہوئے تھے ،لیکن تجارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلام کی دعوت بھی پیش کر رہے تھے ۔تجار ت کرنے والوںپر اللہ تعالیٰ کاخاص فضل و کرم ہوتا ہے ، ارشاد الٰہی ہے:’’ فَانْتَشِرُو ا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ‘‘۔(جمعہ،آیت:۱۰)
یعنی زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو ۔
حضرت محمد بن اسمٰعیل بخاری قدس سرہ اپنی کتاب ’’ صحیح بخاری‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ:
 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت میں مشہوربازار تھے، جب اسلام کا دور آیا تو لوگوں نے اُن بازاروں میں خریدو فروخت کو گناہ تصور کیا، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
 ’’لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوا فَضَلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ۔ ‘‘(بقرہ،آیت:۱۹۸)
 ترجمہ:اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے۔
حضرت امام مہلب المکی قدس سرہ نے کہا ہے کہ شریف آدمی بازار میں خرید و فروخت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس تجارت اور خرید و فروخت کی وجہ سے اپنے آپ کو اس چیز سے محفوظ رکھے گا کہ کوئی شخص اس کے اوپر اپنامال و متاع خرچ کرے ۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بندہ اپنے لیے محنت و مشقت کرے،عطیات اور صدقات کے سہارے زندگی گذارنے کے بجائے جد و جہد کرکے اپنی روزی کمائے، تاکہ اس کی کمائی پر اللہ تعالیٰ کا انعام و فضل ہو، اور وہ ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گذارے ۔
جب انسان بذات خود مسلسل کوشش کرتا ہے تو کسی کے سامنے دست سوال پھیلانے کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی ہے جہاں تک ہوتا ہے وہ کسی کے سامنے ہاتھ دراز کرنے سے گریز کرتا ہے، حضرت لقمان علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بیٹوں سے کہا : اپنا حصہ لو اور اپنی کمائی میں سے آخرت کے لیے خرچ کرو،اوردنیا کو بالکل ترک نہ کرو ورنہ تمہارے بال بچے دوسروں کے کندھوں پر بوجھ بن جائیں گے ۔
 ’’عمدۃ القاری‘‘ میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلاۃ و السلام لوہے کی زرہ بناتے تھے اور اس سے زندگی کی ضروریات پوری کرتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ ان داؤد علیہ السلام کَانَ لَا یَاکُلُ اِلَّا مِنْ عَمَلِ یَدِہ ۔‘‘
یعنی داؤد علیہ السلام صرف اپنی کمائی سے کھاتے تھے ۔
حضرت امام احمد بن حنبل قدس سرہ نے نقل فرمایا :
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ و افضل ہے تو آپ نے فرمایا انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر جائز خرید و فروخت ۔( مسند احمد، ج:۴،ص: ۱۴۱ )
حضرت امام ترمذی قدس سرہ نقل فرماتے ہیں کہ:سچے تاجر قیامت کے دن صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔
مگرکتنے افسوس کی بات ہے کہ جب کوئی عالم محنت کرکے اپنارزق حاصل کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اُسے معاشرے میں حقیر نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ فلاں عالم دین ہو کر کاروبار اور تجارت میں لگا ہوا ہے ۔کاش!ہم اپنے اسلاف کی تاریخ اورکارنامے سے واقف ہوتے تو اس طرح کی کوئی مضحکہ خیز بات نہیں کرتے ۔
حضرت امام طبرانی قدس سرہ لکھتے ہیں کہ:ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک اُن کی نظر ایک ایسے تندرست نوجوان پر پڑی جو روزی حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہا تھا تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ افسوس صد افسوس! یہ اس کام میں مشغول ہے، کاش! اس کی طاقت اور جوانی راہ خدا میں صرف ہوتی ۔یہ سن کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایسا مت کہو ،اگر یہ شخص دست سوال دراز کرنے سے بچنے کے لیے اور لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لیے محنت کر رہا ہے تو وہ راہ خدامیں ہے اور اگر یہ شخص اپنے ناتواں و کمزور والدین اور بچوں کے لیے محنت ومشقت کر رہاہے تو وہ راہ خدامیں ہے ، ہاں! گر مال کی کثرت، دوسروں پر مفاخرت اور فوقیت کے لیے یہ محنت کر رہا ہے تو وہ راہ خدا میں نہیں ہے ،بلکہ شیطان کی راہ پر چل رہا ہے ۔ (المعجم الکبیر )
ایک مرتبہ حضرت زید بن مسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی زمین پر شجر کاری کررہے تھے ، اُدھر سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا تو فرمایا کہ: اے زید! اپنے دین کی حفاظت اور لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لیے بہترین کام وہ ہے جس میں تم مشغول ہو ۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پرلکڑیوں کا گٹھر باندھ کر لائے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص سے سوال کرے پھروہ اس کو دے یا منع کردے ۔  
اس سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ انسان خود محنت کرے ،لیکن آج ہمارے معاشرے میں لوگ محنت سے بھاگتے ہیں اور مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں ،جبکہ حلال رزق کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ لگے رہنا چاہیے،حضرت امام ترمذی رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
 ’’تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا۔‘‘(ترمذی)
یعنی پرندہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اورشام کو پیٹ بھر کے آتے ہیں ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حلال روزی کی تلاش میں مختلف ملکوںکا سفر کرتے تھے ،یہاں تک کہ اپنے باغوںاور جنگلوں میں لکڑیاں کاٹنے کا کام انجام دیاکرتے تھے ۔ 
لیکن یہ بات یاد رہے کہ اگراس کا مال اُسے اللہ کی یاد سے غافل کردے تو وہ تاجر فاسق ہوگا اور اس کامال فسق وفجور کا سبب بنے گا ۔
حُبُّ الدُّنْیَا اَصْلُ کُلِّ خَطِیْئَۃ۔ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ (شعب الایمان، ۱۳؍۷۴)
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی تین قسمیں ہے:
۱۔وہ لوگ جو معاش کی مشغولیت میں آخرت کو بھول جاتے ہیں تووہ ہلاکت کے راستے پر گامزن ہیں ۔
۲۔ وہ لوگ جو آخرت کی مشغولیت کے سبب معاش سے بے نیاز ہو جاتے ہیں یہ ان مغلوب الحال لوگوں کا درجہ ہے جو قربِ الٰہی کی انتہائی منزلوں پر فائز ہوتے ہیں ۔
۳۔وہ لوگ جو آخرت کے لیے معاش میں مشغول ہوتے ہیں تو وہ اعتدال کی راہ پر ہیں ،لیکن اعتدال کا یہ درجہ اس وقت تک میسر نہیں ہوسکتا جب تک وہ معاش حاصل کرنے کے لیے شریعت کے بتائے ہوئے اصول پر نہ چلیں ۔
اس تعلق سے ایک بات ذہن میں گردش کر رہی ہے جسے مرشد العلماء مخدوم الصلحاء داعی اسلام حضرت خواجہ  ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی نے ایک موقعہ پرفرمایا ہے :
یہاں جو تجارت کی جاتی ہے وہ اسلام کی نشرواشاعت کے لیے کی جاتی ہے ،اپنی ضروریات کسی اور چیز سے بھی پوری کرسکتے ہیں ، فرمایا: عبث یہ کڑی درمیانی نہیں ہے 
بلکہ تمام بندوں تک اسلام پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔  



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں