ام حبیبہ
اللہ رب العزت نے ایمان اور اسلام کی دولت سے نواز کر عورتوں کو وہ مقام عطا کیا ہے جو اِس سے پہلے انھیں نہیں ملا تھا ،وہ آزادی اور وہ حیثیت کسی بھی معاشرے میں انھیں نہیں ملی تھی جو اسلام نے انھیں دیا ہے ۔اُن کی حیثیت محض تکمیل شہوت کی ضرورت سے زیادہ نہ تھی، ان کو نہ سوچنے کی آزادی تھی نہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کی ۔غرض کہ ذلت ورسوائی سے اُن کا دامن تار تار تھا،لیکن حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی بعثت نے انھیں فرش سے عرش پر لابٹھایا ۔
اسلامی معاشرے میں ایک خاتون کو کامیاب زندگی گذارنے کے لئے جن اصولوں کی پابندی کرنی پڑتی ہے وہ مردوںکی بہ نسبت ذراالگ ہے ۔آزادی انھیں بھی حاصل ہے مگر جس طرح کی آزادی مردوں کو ہے ویسی نہیں ہے ،مثلا غیر محرم کے سامنے بے پردہ ہو کر جانا ،ان سے با ت کرنا منع ہے ، اس میں اللہ رب العزت کی بے پناہ حکمت ہے جو اُن کے حق میں مفید ہے ۔بظاہر کچھ لو گوں کو اس قانون میں سختی معلوم ہو تی ہے مگر وہ خود مشاہدہ کریںکہ دور حاضر میں اسلامی تہذیب اور غیر اسلامی تہذیب کاکیانفع اور نقصان ہے ۔
بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے اور اس کا کوئی بھی قانون خلاف فطرت نہیں ، بس تھوڑا سا غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کے لیے جو دستور اللہ رب العزت نے بنایا ہے اس کو ہم یو ں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ چند حقوق اور ذمے داریاں ہیں جن کااداکرنا عورتوں کی کامیابی کی دلیل ہے۔اُن میں سب سے پہلا حق اللہ رب العزت کا ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی فرماں برداری کریں، اس کی اطاعت اور بندگی کو حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیں ۔ اُن پر جواحکام فرض کئے گئے ہیں انھیں بجالانے میں کوتاہی نہ برتیں، اس کی ناراضگی سے بچتی رہیں، ایمان وعمل کے تقاضوں کا لحاظ رکھیں۔اگر وہ چاہ لیں تو ان معاملات میں وہ مردوں پر سبقت بھی لے جا سکتی ہیں، اس لیے کہ خدا کی قربت اور ا س کی رضا کا دارو مدار( مردوزن کی تفریق کے بغیر)ایمان واعمال اوراخلاق واحوال پر ہے، اس میںنہ مرد کی تخصیص ہے نہ عورت کی،بلکہ اس میں مردو عورت سب برابرکے شریک ہیں، ان میں جن کا ایمان جتنا قوی ہو گا عمل جتنا اخلاص والا ہوگا،اخلاق واحوال جتنے پاکیزہ اور بلند ہوں گے اسی قدر اُن کو رب کی محبوبیت اور قربت ملے گی۔
دوسرا جو اہم حق ہے وہ عام لوگوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ خیال رہے کہ ہر عورت سب سے پہلے کسی نہ کسی کی بیٹی ہوتی ہے، کسی کی بہن ہوتی ہے ،پھر کسی کی بیوی بنتی ہے ،اس اعتبار سے اس پر والدین ،بھائی،شوہر، اہل خانہ ، رشتے داروں اور عام مسلمانوں کے کچھ حقوق عائد ہو تے ہیں جن کی پاسداری کرنا نہایت ضروری ہے اور حیثیت ومرتبے کے اعتبار سے سب کا احترا م واجب ہے۔ شادی سے پہلے وہ ماں باپ کی امانت ہو تی ہے چو نکہ تعلیم و تربیت اور کفالت و پرورش کی تمام ترذمے داری انھیں کے کاندھوں پر ہو تی ہے، اس لیے اُن کی اطاعت اور خدمت ہر حال میںضروری ہے۔ بالغ ہو نے کے بعد شادی کا مسئلہ آتا ہے، اس کی ذمے داری بھی والدین کی ہوتی ہے، عورت کی اصل زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہی ہو تا ہے،کیونکہ جب وہ شادی کے بعد اپنے سسرال جاتی ہے تو وہاںاس کاسامنا ایک ایسے ماحول سے ہوتا ہے جواس کے لیے اجنبی ہے،لیکن بظاہریہی اجنبی لوگ اورماحول اس کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے، جس کے ساتھ اسے اپنی زندگی کا باقی حصہ بسرکرناہے،گویا عورت کا گھرہی اس کا امتحان گاہ ہو تا ہے۔
ایسے میں ہرعورت کو وہ جامع اصول ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے جو معلم اخلاق حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کیا ہے کہ: ’’ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔‘‘(بخاری)
یعنی اصل مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
’’ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللَّہُ عَنْہُ ۔‘‘(نسائی و احمد)
یعنی اصل مسلمان وہی ہے جس کی زبان وہاتھ سے لوگ سلامت رہیں،اور اصل مہاجر وہ ہے جو اس چیز سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے ۔
اور یہ ذمے داری صرف مردوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، کیونکہ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے جس پر عمل کرکے ایک مسلمان مرد وعورت کسی بھی ماحول میں اپنے حسن اخلاق کی چھاپ چھوڑ سکتا ہے ۔
بہر حال عورتوں کے لیے اس بات کا اہتمام نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پرزیادہ نگاہ رکھیں کہ عورتیں زبان چلانے کے معاملے میں ویسے بھی مشہور ہیں، خاص طور سے غیبت اور چغلی جیسی بری عادتیں ان کے اندر عام ہیں الا ماشاء اللہ۔ جہاں بھی دوعورتیں جمع ہوجاتی ہیں تو ان کی زبان کا بازار گرم ہو جا تا ہے اور ان کی زبان گناہ آلو د ہونے لگتی ہے مگر انھیںاس کا شعور نہیں ہو تا،جبکہ یہ جان لینا چاہیے کہ غیبت سخت حرام ہے، قرآن پاک میںواضح طور پر اس کی مما نعت آئی ہے:
’’وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُم بَعْضاً ۔‘‘ (حجرات:۱۲)
یعنی تم ایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔
غیبت کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایاگیا:
’’ أَیُحِبُّ أَنْ یَّاکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتَا ۔ (حجرات:۱۲)
یعنی غیبت ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا اس بد ترین چیز کو کوئی بھی انسان پسند نہیں کرتا ۔
کچھ ماں بہنیں ایسی بھی ہیں جو غیبت کی حقیقت اور اس کا مطلب نہیں سمجھتی ہیں وہ کسی اور چیز کو غیبت سمجھے بیٹھی ہیں، اس لیے اس کی وضاحت کردوں کہ کسی کے عیب یا کمی جو خود اس نے دیکھی ہو ،اور واقعی میں وہ عیب اس کے اندر موجودہو تو اس کو دوسروں کے پاس جاکر بیان کرنا اورپھیلانا غیبت ہے،لیکن اس کے مرشد، والدین ،استاذ یا جس کی تربیت میں ہو ،اصلاح اور خیر خواہی کی نیت سے بیان کرنا غیبت نہیں۔
آج کے دور میں عورتیں خاص کر اپنے شریک زندگی شوہر کی عزت اور وقار کی پرواہ کیے بغیر تھوڑی سی تلخی پر غیبت اوربہتان تراشی کی تمام حدیں پار کردیتی ہیں جس کے نتیجے میں ، ان کی دنیابھی بربادہوجاتی ہے ا ورآخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے ۔
اسی طرح ایک حساس مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایسے حالات آتے ہیں ایک طرف شوہر کی مرضی کچھ اور ہوتی ہے اور ماں باپ کی کچھ اور تو اس وقت وہ کس کی رضا کا خیا ل کرے سواس صورت میں حق اور جائز معاملہ میں شوہر کی اطاعت واجب ہے ماں باپ کی نہیں ۔
دوسرا اصول جو اپنی افادیت کے اعتبار سے نہایت اہم ہے ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ: تم میں سے کو ئی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہو جائے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جواُسے اپنے لیے پسند ہو ۔
اس تعلق سے پوری امت مسلمہ نہایت بے راہ روی کی شکار ہے اور بالخصوص عورتوں کے اندر تو دوسروں کے لیے ایسا جذبہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اکثر اس تاک میں لگی رہتی ہیں کہ کس طرح دوسری ہم عمر کو ذلیل کیا جائے اور اپنی پرفریب پاکیزگی و بڑائی کا ڈنکا کس طرح بجایاجائے ۔حالانکہ ان کی یہ عادت اس حدیث کے با لکل مخالف ہے کہ: جب تم اپنی بے عزتی پسند نہیں کرتی تو اسی طرح دوسروں کی بے عزتی بھی پسند نہ کرو ۔ لہذاجب ہماری بہنیں اپنی برائی سننا گوارا نہیں کرتیں تو اسی طرح انھیں نہ دوسروں کی برائی سننا چاہیے اور نہ کرنا چاہیے ۔ اگران اصولوں کی پابندی کیاجائے تویقینا ایک عورت اپنی دنیا و آخرت دونو ں کو سنوار سکتی ہے، اپنے گھر اور معاشرے کوخوش گوار اورپرامن بنا سکتی ہے، جب کہ اس کی خلاف ورزی انھیں کہیں کا نہ رہنے دے گی۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں