Momin Ki Pehchan


  مومن کی پہچان
امام الدین سعیدی

 اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں سب سے اشرف اور بہترین مخلوقات میں پیدا فرمایا اور طرح طرح کی اپنی بے بہا نعمتوں سے نوازا، لیکن سب سے بڑی نعمت جو ہم انسانوں کو عنایت کیا ہے وہ ایمان کی دولت ہے، جس کے سبب تمام امتوںمیں ہم بہترامت قرارپائے اورمومن کہلانے کا حقدار بنے۔ اب مومن کے اوصاف کیا ہیں اور اس کی نشانیاں کیاہیں، اس تعلق سے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا ہے:
 اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْاوَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (سورئہ حجرات )
یعنی اللہ رب العزت نے اس آ یت کے اند رمو من کی نشانی یہ بتائی ہے کہ حقیقت میں مومن وہی ہے جو اللہ و رسول پر ایمان لائے اور کسی شک میں نہ پڑے، پھر اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرے ،یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں ۔
ایمان کا مطلب  
یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ذات و صفات کے اعتبار سے۔
٭ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک جانے ، اس کی صفات و کمالات کودل سے مانے ، اس کے احکام  دل سے قبول کرے اور اس کی فرمانبرداری کو اپنے اوپر لازم کرلے ۔
٭رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی رسالت و نبوت میں شک نہ کرے ، ان کی اتباع وپیروی کو اپنے اوپر لازم کرلے ، ان کی حد درجہ تعظیم کرے اور ان سے اپنا قلبی لگا ئو مضبوط رکھے۔
 شک نہ کرنے کا مطلب
 شک نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ایسا یقین حاصل ہو جیسے کہ دھوپ دیکھنے کے بعد ہمیں سورج کا یقین ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اورجیسے ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہے کہ دس کا عدد تین کے عدد سے بڑا ہے۔ لاکھ کو ئی کہے کہ دس کا عددتین کے عدد سے چھوٹا ہوتا ہے اور وہ اپنے اس دعوی پر دلیل بھی دے ، پھر بھی ہمارے اس یقین میں فرق نہیں آئے گا کہ دس تین سے بڑا ہے، اسی طرح ایمان کا بھی حال ہے کہ جب ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں تو ان کی ہر بات پر ایسا ہی یقین ہو نا چا ہیے۔ 
جان سے جہاد
جان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ اپنی جان کو اللہ و رسول کی اطاعت میں کھپادیاجائے۔ جس طرح تم اپنے اہل و عیال کے لیے پریشانیاں برداشت کرتے ہو اور اسے خوش رکھنے کے لیے سخت سے سخت تکلیف اٹھا لیتے ہو، ایسے ہی اپنے مولیٰ کو خوش رکھنے کے لیے اور اس کے احکام کی اطاعت کے لیے جو بھی پریشانی اور مشکل آجائے اس کی وجہ سے اس کی ناراضگی مول نہ لوبلکہ اس مشکل کو برداشت کرو۔ اپنی طبیعت اور مزاج کے آرام کاخیا ل مت رکھو ۔
 مال سے جہاد
 مال سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ اپنی دولت میں سے ضروریات زندگی کے علاوہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اب رہایہ سوال کہ کتنامال خرچ ہو؟تو نفلی صدقہ میں کوئی مقدار متعین نہیں، یہ توہرمومن کے ایمان کے اعتبارپر موقوف ہے ۔ ظاہر ہے جس کا ایمان جتنامضبوط اور پختہ ہو گا ،اس کے پاس راہ مولیٰ میں خرچ کرنے کا جذبہ اتنا ہی زیادہ ہو گا ۔
انسان دنیاوی فائدے کے لیے دنیا وی کاموں میں بے دریغ دولت لٹاتا ہے اور اسے ذرہ برابر افسوس نہیں ہو تا، جبکہ اس کا فائدہ صرف دنیا ہی تک محدود ہے وہ بھی یقینی نہیں مگر اللہ کی راہ میں تھوڑا مال بھی خرچ کرنے میں افسوس کرنے لگتا ہے۔حالانکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا اتنا بڑا فائدہ ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ،اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، اس کی مثال یہ ہے کہ:
 كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍوَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ۝۲۶۱ (سورۂ بقرہ)
یعنی اس دانے کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے، مزید اللہ چاہے تو اس میں کئی گونہ اضافہ کر سکتا ہے ۔
 اس آیت میں اللہ رب العزت نے کھلی ہو ئی مثال کے ذریعے ہمیںیہ سمجھا دیا کہ ہم جتنا بھی مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو اس کا سات سو گنا اجر ہمیں ملے گا اور اللہ چا ہے تو اس اجر کو کئی گنازیادہ کر سکتا ہے ۔
 کسی بزرگ کا قول ہے کہ انفاق سے نفاق ختم ہو تا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دل کا نفاق ختم ہو تا ہے۔    
چونکہ ہم آخرت کا فائدہ اور وہاں کی نعمت نہیں دیکھ رہے ہیں، اس لیے ا س کا احساس اور شوق نہیں اور دنیا کا فائدہ دِکھتا ہے، اس لیے اس طرف ہم زیادہ بھاگتے ہیں مگر یاد رکھیے کہ دنیا کی چیزوں سے کہیں زیادہ ایک مومن کو آخرت کی نعمتوں پر یقین ہو نا چاہیے کیو نکہ اس کی خبر خو د خالق کائنات دے رہا ہے، جس کی بات کی سچائی اور حقیقت میں شک کرنا بھی کفر ہے۔ اُسے بلا چون وچرا دل سے تصدیق کرنا ہی ایمان ہے، چاہے وہ ہمیں نظر آئے یا نہ آئے ، اس لیے کہ اہل ایمان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔

اس تفصیل کی روشنی میں ہر مومن کو اپنے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ سچے مومن ہیں یا صرف زبان سے محض ایمان کا دعوی کر رہے ہیں؟سچے مومن کی کسوٹی کیا ہے؟ہمیںقرآن نے بتادیاہے اس پر اپنے آپ کو آزمائیں۔ اگر ہم حقیقت میں ایمان سے دور ہیں تو ہمیں کامل ایمان حاصل کرنے کے لیے صراط مستقیم پر چلنا پڑے گا اور سچوں کی صحبت اختیا ر کرنا پڑے گا۔


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0