قرآن کے عاملین
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (حجر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لے کر آئے اسے دین اسلام یادین محمدی سے تعبیرکیاجاتاہے اور جو کتاب آپ پر اتری اسے قرآن مجیدکہاجاتاہے ،جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ رب العزت نے خود اپنے ذمۂ کرم پر لی ہے،ارشاد ہے:
وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَہم ہی اس قرآن کے محافظ ہیں ۔
اس آیت کریمہ میں ذکرسے مراد قرآن مجید ہے اور ذکر کا وجود بغیر ذاکر کے نہیں ہوتاکیونکہ لفظ ذکر مصدر ہے اور مصدر اپنے وجودمیں ذات کا محتاج ہوتاہے ،اس سے واضح ہوگیاکہ ذکر یعنی قرآ ن اور ذاکر یعنی صاحب قرآن اور عارف قرآن دونوں کو اتارنے والااور ان کی حفاظت کرنے والااللہ تعالیٰ ہے ، تفسیر حسینی میں ہے:
وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ میں لَهٗکی ضمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے یعنی ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہرطرح سے حفاظت کرنے والے ہیں ۔
کتاب اللہ جو مصحف کی شکل میں ہمارے درمیان ہے وہ صامت قرآن ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ جو قرآن کی عملی تفسیر ہے وہ ناطق قرآن ہے ۔ دین کے یہی دوبنیادی مخزن اور سرچشمہ ہیں جن سے سیرابی حاصل کرنے والے کو صادقین ،عارفین اور علماباللہ کہاجاتاہے اور یہی ناطق قرآن ہیں جن کے پردے میں اللہ رب العزت اپنے مخلصین بندوں کواپناعرفان عطافرماتاہے ۔
صاحب عرائس البیان اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: ’’ہم نے عارفین کے قلوب، یقین رکھنے والوں کے سینے اور ایک خداماننے والوں کے دلوں میںقرآن نازل کیا۔
صاحب عرائس البیان مزید فرماتے ہیں :
’’ اللہ صدیقین اور صادقین کے دلوں کو شکوک نفسانی، وساوس شیطانی اور خطراتِ ذمیمہ سے محفوظ رکھتاہے کیوں کہ یہی قرآن کے محافظ اور کلام اللہ تعالیٰ کے اسرار ورموز سے واقف ہیں ۔‘‘
صامت قرآن اور ناطق قرآن دونوں تا قیامت موجود رہیں گے ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۶۴(یونس)
یعنی اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ ارشاد فرمایا:لانبی بعدی۔یعنی میرے بعد اب کوئی نبی نہیں ہوگاوہیں یہ بھی ارشاد فرمایا:
إِنِّي تَارِكٌ فِيْكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهٖ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ:كِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَّمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ،وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،وَلَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتّٰى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ فَانْظُرُوْا كَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا۔ (ترمذی،مناقب اہل بیت النبیﷺ )
ترجمہ:تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہاہوں کہ اگر تم مضبوطی سے اس پر عمل کرتے رہے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے، ان میں پہلادوسرے سے عظیم ہے۔ ایک کتاب اللہ ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی رسی ہے، یعنی بندے کو خداتک پہنچانے کاایک ذریعہ ہے اور دوسری میری عترت یعنی اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ہمیشہ ہمیش ساتھ رہیں گے حتی کہ حوض کوثر پر بھی، اس لیے بار بار غور کرو کہ میرے بعد تم نے ان دونوں سے کتنامضبوط اپنا رشتہ رکھاہے ۔
عترت وہی ہوگی جو سیرت محمدی پر عامل اورفطرت نبوی پر قائم ہوگی، کیوں کہ کنعان جو حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا، ان کی سیرت وکردار پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے کہا:
یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ۴۶(ہود)
ترجمہ: اے نوح !وہ آپ کی آل نہیں ہے۔
اس سے واضح ہوگیاکہ عترت سے مراد وہ لوگ ہیں جو عارف ذات الٰہی نہ ہوں تو کم ازکم عارف صفات الٰہی ہوں۔ ایسی نفوس مقدسہ سے زمین کبھی بھی خالی نہیں رہی ہے اور نہ رہے گی ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ۔(بخاری،باب السوال من المشرکین)
یعنی میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ دین الٰہی پر قائم رہے گی، انھیں رسواکرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے انھیں کچھ بھی ضرر نہ دیں گے ۔
دوسری روایت میں ہے :
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي ظَاهِرِيْنَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتّٰى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ۔(مسلم، قول النبی لاتزال طائفۃ)
یعنی میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر گامزن رہے گی۔ بعض علم ظاہر رکھنے والے کج فہم ان کی مخالفت میں لگے رہیں گے لیکن یہ اہل اللہ ہمیشہ انھیں حق کی دعوت دیتے رہیں گے اور ان کے لیے ہدایت کی دعائیں کرتے رہیں گے ۔
اس حدیث رسول میں :ظاہرین علی الحقہے، حق سے مراد دین یاکلام اللہ یااللہ ہے ۔اگر حق سے مراد دین لیا جائے تو دین ایمان ،اسلام اور احسان کے مجموعے کانام ہے۔ اب حدیث کامعنی ہوگاکہ یہ جماعت دین کے تینوں شعبوں پر مستقیم ہوگی اوراگر قرآن مراد ہوتومعنی یہ ہوگاکہ امت قرآن پر پورے طور سے عامل ہوگی اور عارف صفات الٰہی ہوگی اور اگر حق سے مراد اللہ لیاجائے توعلٰیاستعلاکے بجائے مع کے معنی میں ہوگا،اب حدیث کا مفہوم یہ ہوگاکہ میری امت میں ایک جماعت ایسی ہوگی جن کے اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس طرح گذرتے ہیں کہ غیر کا بلکہ اپنے وجود کابھی خیال نہیں ہوتا۔
ان ہی مقدس نفوس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
فَسْـَٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ۴۳(نحل)
ترجمہ:میرے بندو!اگر تم مجھے نہیں جانتے تو میرے محبوبوںسے میراپتہ پوچھو،یعنی میرے بارے میں پوچھو، کیوں کہ حقیقت میں یہی میری معرفت رکھنے والے ہیں ۔
آپ جان چکے ہیں کہ ذکر سے مراد قرآ ن ہے اور قرآن کلام اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو اَهْلَ الذِّكْرکا صاف مطلب یہ ہواکہ جو قرآن کی عملی تفسیر ہیں اور جنھیں صفات الٰہیہ کا علم ہے، ان سے میری معرفت حاصل کرو۔اگر تم نے انھیںاپنا مشعل بنایاتو یقینایہ مشاہدے اورمکاشفے کی منزل سے گذارکر تمہیں دیدار مولیٰ کی لذت دوام سے آشناکرادیں گے۔
اس آیت مقدسہ پرپھر ایک نظر ڈالیں ۔سب سے پہلے آپ لفظ سألپائیں گے جس کا معنی طلب کرنااور درخواست کرناہے، لفظسألدومفعول کاتقاضہ کرتاہے جب کہ اس آیت کریمہ میں صرف ایک مفعول کا ذکر ہے کہیں ایساتو نہیں کہ مفعول اول اللہ اور مفعول ثانیاأهْلَ الذِّكْرِکہو، اور آیت کا معنی یہ ہوکہ اگرتمھیںآخرت کی پرخطرگھاٹیوں کا علم نہیں ہے تو تم اللہ سے’’ آیت کبریٰ ‘‘اور ’’نعمت عظمیٰ ‘‘یعنی ’’اہل اللہ ‘‘ کامطالبہ کروکیوں کہ یہی وہ علما باللہ ہیں جو نجات کی راہوں اور درجات کی منزلوں سے خوب واقف ہیں ۔
حضرت امام محمدغزالی علیہ الرحمہ علم آخرت کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ وہ علم ہے جو کتابوں میں نہیں لکھاجاتا،بلکہ یہ وہی علم باطن ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ مِنَ الْعِلْمِ کَھَیْئَۃِ الْمَکْنُوْنِ لَایَعْلَمَہُ إلَّاأھْلَ الْمَعْرَفَۃِ بِاللّٰہِ تَعَالٰی ۔(کنز العمال،جز:۱۰،ص:۱۸۱)
بعض علوم چھپے ہوئے خزانے کی طرح ہیں جنھیں صر ف وہ لوگ جانتے ہیں جو اللہ کی معرفت رکھتے ہیں ۔
مزید فرماتے ہیں کہ: بعض عارفین کاکہناہے کہ ہمیں اس شخص کے برےخاتمہ کا اندیشہ ہے جو اس علم سے بہرہ ور نہیں ہیں یااس کا کوئی حصہ اسے نہیں ملا،اس علم کاکم سے کم حصہ یہ ہے کہ اس کی صداقت وحقانیت کا اعتراف کیاجائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ جو لوگ اس کے اہل ہیں انھیں یہ علم حاصل ہے ۔
لیکن ہماری عقل نارسانے اس نظریے پر یقینی مہر ثبت کردیاہے کہ زمین اولیائے کاملین سے خالی ہوچکی ہے ۔ اسی فہم نے امت کاشیرازہ منتشرکردیا،شیطانیت غالب آئی اور آہستہ آہستہ لوگ اہل اللہ سے دورہوتے چلے گئے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم خداسے بہت دورہیں ۔
آئینۂ دل کوان آلائشوں سے صاف کرنے کی ضرورت ہے جو اللہ کی ذات ،صفات ،اسما ،افعال ا وراحکام کی معرفت میں رکاوٹ ہیں ،لیکن امام محمدغزالی قدس اللہ سرہٗ کے بقول:
’’یہ علم کتابوں میں نہیں لکھاجاتا۔‘‘
صادقین اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں کی تلاش اور ان کی صحبت ضروری ہے تاکہ ان کی توجہ سے قلب پر جو کفر خفی، شرک خفی اور خصائل رذیلہ کی دبیز گرد جم چکی ہے وہ صاف ہوجائے اور دل نورایمان سے منورہوجائے۔
عالم باﷲ وہ کہلاتا ہے
جس کی صحبت میں خدا یاد آتا ہے
ماسوادرویشِ کامل کے کوئی
دہر میں ہرگز نہیں ہے مولوی
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں