Shaikh Abul Qasim Qushairi Ki Taleemat


 شیخ ابوالقاسم قشیری کی تعلیمات
شیخ ابوالقاسم عبدالکریم قشیری مفسر،مورخ،ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ،ممتاز صوفیامیں سے تھے۔وہ ماہ ربیع الاول ۳۷۶ میں ’’استوا‘‘کے مقام پر پیدا ہوئے۔شیخ ابودقاق کے مرید تھے،لیکن ان کی وفات کے بعد شیخ ابوعبدالرحمن اسلمی سے استفادہ کیا۔تقوی کا عالم یہ تھا کہ سخت بیماری میں بھی تمام نمازیں کھڑے ہوکر ادا کیاکرتے۔بانوے سال کی عمر پاکر ۱۶؍ربیع الآخر بروزاتوار ۴۶۵ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور اپنے مرشد کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ادارہ
صوفیا کے یہاں، ’’فنا‘‘سے مراد مذموم اوصاف کا ساقط ہونا ہے اور بقا سے مراد اوصاف محمودہ کا بندہ کے ساتھ قائم ہونا ہے۔ انسان میں ان دونوں قسموں میں سے ایک نہ ایک صفت ضرور باقی رہتی ہے۔ ایک صفت کی نفی ہوجانے سے لامحالہ دوسری کا اثبات ہو جاتا ہے اور جو اپنے اوصاف مذمومہ سے فنا ہو چکا ہو، اس پر صفات محمودہ ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں اور جس پر مذموم خصلتیں غالب آتی ہیں تو اس سے صفات محمودہ پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔
یاد رکھیں کہ جن اوصاف کے ساتھ انسان متصف ہوتا ہے وہ یا تو افعال ہیں یا اخلاق یا احوال۔
 افعال وہ ہیں جن میں انسان اپنے اختیار سے تصرف کرتا ہے۔
اخلاق وہ صفات ہیں جو انسان میں فطری طور پر پائے جائیں۔ البتہ کسی صفت کی مسلسل عادت رکھنے سے صفت کو بدل بھی سکتے ہیں۔
 احوال وہ ہیں جو شروع میں انسان پر وارد ہوتے ہیں، مگر ان کی صفائی کا دار و مداراعمال کی صفائی پر ہے۔ 
اس اعتبارسے احوال بھی اخلاق کی طرح شمار ہوں گے، کیونکہ جب انسان دل سے اخلاق کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور اپنی کوشش سے اپنے خراب اخلاق کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مہربانی فرما کر اس کے اخلاق کو اچھا کردیتا ہے۔ اسی طرح جب انسان اپنی پوری کوشش صرف کر کے اپنے اعمال پیہم کاتزکیہ کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کے احوال کو پاک بنا دیتا ہے، بلکہ کمال کے ساتھ احوال کو اس پر وارد کرتا ہے۔ اس لیے جس شخص نے ان افعال کو جو شریعت کے اندر مذموم قرار دیے گئے ہیں، ترک کر دیا، اس کے متعلق یوں کہا جائے گا کہ وہ اپنی خواہشات سے فنا ہو چکا ہے اور جب اپنی شہوات سے فنا ہو گیا تو اپنی نیت اور اخلاص کے ساتھ وہ اپنی بندگی میں رہے گا اور جو دل سے دنیا سے رو گردانی کرتا ہے اس کے متعلق کہا جائے گاکہ اس کی ہر طرح کی رغبت فنا ہو گئی تو وہ صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرنے پر قائم رہے گا۔
اور جس نے کوشش کر کے اپنے اخلاق کو ٹھیک کر لیا اوراپنے دل سے حسد، کینہ، بخل، غصہ، تکبر اور اسی قسم کی دیگر بری عادتوں کو دور کر دیا تو اس کے متعلق یوں کہا جائے کہ فلاں اپنے اخلاق بد سے فنا ہو گیا اور جب اخلاق بد سے فنا ہو گیا تو وہ عمدہ اخلاق اور صدق کے ساتھ باقی رہے گا اور جس نے احکام کے رد و بدل ہونے میں اللہ کی قدرت کے جاری ہونے کا مشاہدہ کیا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ حوادثات کو مخلوق کی طرف سے خیال کرنے سے فنا ہو گیا اور جب وہ ان آثار کو غیر اللہ کی طرف سے سمجھنے سے فنا ہوگیا تو وہ اللہ کی صفات کے ساتھ باقی رہا اور جس پر سلطان حقیقت کا غلبہ ہو، یہاں تک کہ وہ غیر اللہ کی طرف سے کسی چیز کو نہ دیکھے نہ اصل کو اور نہ اس کے نشان کو، اس کے متعلق کہیں گے کہ وہ مخلوق سے فنا ہو گیا اور حق کے ساتھ باقی رہا۔
 اس لیے بندے کا اپنے مذموم افعال اور حقیر احوال سے فنا ہونا یہی ہے کہ یہ افعال اس سے معدوم ہو جائیں اور اپنی ذات اور مخلوق سے اس کا فنا ہونا یہ ہے کہ اپنے نفس اور مخلوق کے متعلق اس کا احساس جاتا رہے اور جب انسان اپنے افعال، اخلاق اور احوال سے فنا ہو چکا تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے جو کچھ بھی فنا ہو چکا اس میں موجود ہو جائے۔
اور جب یوں کہا جائے کہ بندہ اپنی ذات اور مخلوق سے فنا ہو گیا تو اس کا نفس بھی موجود ہے اور مخلوق بھی موجود، مگر اسے نہ اس کا علم ہے نہ اپنا کوئی احساس ہے اور نہ خبر، اس لیے اس کی ذات بھی موجود ہوگی اور مخلوق بھی مگر وہ اپنی ذات اور تمام مخلوق سے غافل ہے، اسے نہ اپنی ذات کا احساس ہے نہ مخلوق کا۔
 چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کسی صاحب سطوت انسان کے پاس جاتا ہے تو اس کی ہیبت سے وہ اپنی ذات اور اہل مجلس سے غافل ہو جاتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ اس صاحب سطوت سے بھی غافل ہو تا ہے۔ پس وہاں سے واپس آنے کے بعد اسے اگر وہاں کے اہل مجلس، صاحب سطوت کی ہیبت اور اپنی ہیئت کے متعلق دریافت کیا جائے تو وہ کچھ بھی نہ بتا سکے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جب ان عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو ان کو بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ان عورتوں کو اس وقت جب کہ انھوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا اپنے ہاتھ کاٹنے کی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ حالانکہ وہ بہت کمزور ہوتی ہیں اور بول اٹھیں: ما ھذا بشر۔

(رسالہ قشیریہ،ص:۲۳۸ تا ۲۴۰)


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0