Sheikh Ki Muhabbat


شیخ کی محبت
محمد مشفق رضا

انسان کی وجہ تخلیق محبت ہے، یہی سبب ہے کہ انسان اپنی  زندگی میں کسی نہ کسی کی محبت میں گرفتار رہتا ہے۔ محبت کے کچھ ایسے اسباب ہوتے ہیں جو انسان کے اندرمحبت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اب چاہے وہ محبت اور لگاؤ فطری ہو یا عقلی یا پھر حقیقی ،لیکن اکثر ہماری حیات ایسی بیکاراوربری چیزوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے جس کا نہ ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ ہمارا مقصود ہے۔ ہم اپنی معاشرتی زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کی محبت میں گرفتار ہے اور اکثر لوگوں کی محبت ایسی ہوتی ہے جو اس دنیائے فانی تک ہی سمٹ کر رہ جانے والی ہے اور ہم اپنی پوری زندگی کو ایسی چیز کی طلب و جستجو میں لگا دیتے ہیں جس سے صحیح معنوں میں ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے، جبکہ دنیوی فائدہ حقیقت میں دینی فائدے کی آمیزش کے بغیر بے کار ہے۔
 جب ہماری تخلیق اسی وادیٔ عشق میں فنا ہونے کے لیے کی گئی ہے تو ہم کیوں نہ ان کی طرف متوجہ ہوں جن سے دنیا و آخرت سب سنور جائے اور وہ ہے شیخ کامل،اس لیے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو لوگوں کو صحیح راہ دکھانے اور اپنے رب سے ملانے کے لیے اس عالم فانی میں بھیجے گئے ہیں۔ ان کا مقصدحیات  لوگوں کی رہنمائی ہے جس کے لیے خالق کائنات عز و جل انھیں اس دنیا میں منتخب کر لیتا ہے جو اپنی ایک نظر سے لوگوں کی دنیا و آخرت دونوں سنوار دیتے ہیں ۔لوگوں کو حق کی معرفت اور عبادت کا طریقہ سکھاتے ہیں اور جو ہستی لوگوں کو اس کی تخلیق کے مقاصد سے آگاہ کرادیں ، حق کی عبادت کا سلیقہ بتائے اور حق تک رسائی کرائے، اس کی چھتر چھایہ میں جانا اور اس کی صحبت سے فائدہ لینا ہر ایک طالب حق پر لازم و ضروری ہے۔ ارشاد باری ہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإنْسَ إلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔
ترجمہ:اور میں نے جن و انس کی تخلیق اپنی معرفت و عبادت کے لیے ہی کی ہے۔
 شیخ ہی عبادت کا سلیقہ اور معرفت کا طریقہ بتاتے ہیں جس کے بغیر رب حقیقی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تواب جو بھی اپنے مقصد حیات تک پہنچنا چاہتاہے، اس کے دل میں شیخ کی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ شیخ سے محبت کے بعد ہی وہ ان کے فیوض و برکات سے مالامال ہو کر اپنی تخلیق کے مقصد کو حاصل کر پائے گا۔
 اب کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ محبت شیخ کا مفہوم کیا ہے؟تو سب سے پہلے ہمیں محبت کو سمجھنا ہوگا، اس کے بعد ہمیں یہ بات بخوبی سمجھ میں آئے گی کہ شیخ سے محبت کرنے کا کیا معنی ہے۔
 حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میلان طبع کو محبت قرار دیتے ہیں، لیکن محبت ایک ایسا لفظ ہے جس کے صحیح مفہوم کو الفاظ کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا ،کیوںکہ محبت ایک کیفیت کا نام ہے اور کیفیت کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر سمجھانا بہت مشکل ہے۔ ہاں! محبت کے مفہوم کو اس کے تقاضوں اور محبتوں کے احوال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ انسان جس سے بھی محبت کرتا ہے، اس کو خوش کرنے اور اُسے راضی رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ محب کومحبوب کا حکم بجا لانے اور اس کی اطاعت میں جو مزہ ملتا ہے وہ اس راہ کے سالکوں پر مخفی نہیں۔ محب اپنی پوری زندگی محبوب کی اطاعت، اس کی فرمانبرداری میں گذار نا پسند کرتا ہے اور محبوب کو راضی رکھنے کے لیے اگر اُسے تن، من، دھن سب قربان کرنا پڑے تو اس پربھی وہ بلا تأمل عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ محبت شیخ کا معنی یہ ہے کہ انسان خود کو اپنے شیخ کے حوالے کر دے اور اپنی نفسانی خواہشات کو مٹا کر خود کو شیخ کا غلام بنا لے۔
 حاصل یہ کہ خود کو بھول جائے اور شیخ کی رضا کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لے، کیونکہ شیخ کی رضا میں خدا کی رضا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرتے ہوئے داعی اسلام شاہ احسان اللہ محمدی ادام ظلہ علینا ’’نغمات الاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں :؎
در حقیت وہ ہے مقبولِ خدا
جو دل و جاں سے ہو بندہ شیخ کا
اس کے علاوہ متعدد آیات سے بھی شیخ کی محبت کی اہمیت اور اس کی ضرورت کا پتہ چلتا ہے۔ خدائے وحدہ لاشریک اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے:یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۱۹ (بقرہ)
ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
 دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْا إلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۝۱۱۹(مائدہ)
ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اُس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو۔ 
مذکورہ آیات میں خدائے وحدہ لاشریک اپنے بندوں کو ڈرنے اور تقویٰ شعار ہونے کا حکم دیا اور فرمایا کہ سچوں کے  ساتھ ہو جاؤ ،اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو، ایسے کی جستجو کرو جو اس تک پہنچانے والا ہو۔ شیخ کامل انھیں صادقین میں سے ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے رہنے کا حکم دیا ہے۔ شیخ کامل ان وسیلوں میں سے ہیں جو اللہ تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد تقویٰ کے لیے صلحا اور مشائخ کی صحبت ضروری ہے ۔ صحبت شیخ کے بغیر عالم کا علم اور اس کی عبادت پھل کے چھلکے کی حیثیت رکھتا ہے اور علم کے باجود کچھ کمی ر ہ جاتی ہے جو بغیر شیخ کے پوری نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جو علمائے ربانی ہوا کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کے کچھ لمحات کو کسی نہ کسی شیخ کی صحبت میں ضرور گذارتے ہیں، جیسا کہ امام اعظم کے تعلق سے اُن کا یہ قول مشہور ہے کہ نعمان ہلاک ہو گیا ہوتا اگرجعفر صادق کی صحبت میں نہ جاتا۔
علمائے حق کے احوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محبت شیخ وہ اہم ذریعہ ہے جس سے بندہ اپنے مقصد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اگر کسی کو علم سے مستفید ہونا ہے، لذت و شہوات دنیوی سے الگ ہونا ہے اور دنیا کے فریبوں سے بچ کر حقیقت میں گم ہونا ہے تو شیخ کامل کے چوکھٹ پر سر رکھے اور اس سے معرفت الٰہی کی بھیک مانگے، کیونکہ شیخ کامل ہی انسان کو اس دنیا میں رہ کر دنیا سے بے نیاز ہونے کا سلیقہ دیتا ہے اوردنیامیں ایک خدا کے لیے جینے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اب اگر ہمیں دنیا کی آزمائش میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے خدا تک پہنچنا ہے تو ہمیں بھی کسی ایسے خدا رسیدہ کی تلاش و جستجو کرنی پڑے گی جو ہمارا ہاتھ پکڑ کر سیدھی راہ پر چلائے اور ہمیں ہمارے مقصد تک پہنچائے۔
کیونکہ مکمل طور پر دین کو سمجھنے ، احکام شرع پر عمل کرنے، دین میں اخلاص کے لیے، خدا تک رسائی کے لیے اور اپنے مقصد حیات تک رسائی کے لیے محبت شیخ کا ہونا بہت ضروری ہے کہ شیخ کے بغیر ہم اپنے مقصد حیات تک نہیں پہنچ سکتے اور مکمل طور پر دین پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ اس دنیا میں شیطان ہم پر ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کرتا ہے کہ ہم پہچان بھی نہیں پاتے، جیسے کبر، حسد، طمع، بغض، غلبۂ شہوت وغیرہ اس کے ایسے بے چوک ہتھیار ہیں جن سے بچنے کے لیے ہمیں شیخ کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ اس کی محبت کے بغیر شیطان کے حملے سے بچنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے ۔ اسی مفہوم کو’’ نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ میں یوں بیان کیا گیا ہے :؎
شرع و دیں بے پیر راہ ِپرُ خطر
الحذر اے مردِ ناداں الحذر
جس کا کوئی مرشد و رہبر نہیں
اس کا رہبر نفس و شیطاں بالیقیں
پس دعا ہے کہ خالق کائنات ہمارے دلوں میں شیخ کی محبت ڈال کر اپنی معرفت عطا کرے اور ہمیں جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے اس مقصد کو پورا کرنے والا بنائے۔
(آمین یا رب العالمین)



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0