شکرہزارنعمت ہے
جہاں گیرحسن مصباحی
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شکر جیسی انمول نعمت دے کر اُن پر بڑا فضل فرمایا ہے ۔بندہ اگر اس نعمت کوسچے دل سے اپنا لے تو یقیناا س کی زندگی نہایت اطمینان و راحت اور سکون کے ساتھ گذرے گی۔اس کے علاوہ اوربھی بہت ساری ایسی نعمتیں عطاکی گئی ہیں کہ بندہ چاہ کر بھی اُنھیں شمار نہیں کرسکتا ہے،خود اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَاِنْ تَعُدُّ وْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لاَتُحْصُوْھَا۔‘‘
(سورہ نحل،آیت:۱۸)
ترجمہ:اوراگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرناچاہوتوشمار نہیں کرسکو گے۔
جس طرح بندہ اپنے رب کی نعمتوں کو گن نہیں سکتا ہے ویسے ہی ان نعمتوں کا شکر بھی نہیں اداکرسکتا ہے۔کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوجان کی شکل میں جونعمت بخشی ہے ،صرف اسی پر غورکریں تودو نعمتیں صاف طور پر نظرآتی ہیںجو ہر حال میں انسان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں:
۱۔ سانس کا اندرجانا۔
۲۔ سانس کا باہر آنا۔
انسان صرف ان ہی دونعمتوں کا شکر کرے تواس کی پوری زندگی ختم ہوجائے گی لیکن وہ ان دونعمتوں کا شکر ادانہیں کرسکے گا،چہ جائے کہ وہ دوسری نعمتوں کا شکر اداکرے ،مگر ہاں!یہ کوشش ضرور ہو کہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرنے میں لگارہے۔اس سے انسان کو دوفائدے حاصل ہوںگے ۔ایک تو شکر اداکرنے کے سبب وہ اللہ تعالیٰ کا ناشکرا بندہ نہیں کہلائے گا اور دوسرا یہ کہ شکر جیسا محبوب عمل کرکے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا حقدار بنے گا۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط تر ہوںگے اور جب وہ اس عمل کا عادی ہوجائے تواللہ تعالیٰ بھی اس کی شہرت اورمقبولیت کوعام فرمادے گا ،جیسا کہ اللہ تعالی فرماتاہے:
’’فَاذْکُرُوْنِی اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَاتَکْفُرُوْنِ۔‘‘(سورۂ بقرہ،آیت:۱۵۲)
ترجمہ:تم مجھے یادکرومیں تمھارا چرچاکروں گااورمیرا حق مانواور ناشکری نہ کرو۔
شکر کرنے والوں کے لیے نعمتوں میں ہمیشہ اضافہ ہوتا ہے ، جبکہ ناشکری کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہے ، کیونکہ ناشکری اللہ تعالیٰ کو پسندنہیں ہے اور جس عمل کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرمائے،اس عمل کے کرنے والے عذاب کے علاوہ اور کس چیز کے سزاوارہوں گے، قرآن مقدس میں ہے:
’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۔‘‘(سورہ ابراہیم، آیت:۷)
ترجمہ:اگر تم شکرکروگے تو میں تمھیں اوردوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بے حد پسند تھا۔انبیاومرسلین کے سرداراوراللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کے باوجود آپ شکر الٰہی اداکرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ اکثرعبادت وریاضت میں مشغول رہاکرتے تھے ۔ جب پوچھا جاتا کہ آپ تو اللہ کے سب سے محبوب بندے ہیںاور اللہ تعالیٰ نے آپ کوتمام مخلوقات پرفضیلت بخشی ہے، پھر اس قدر عبادت وریاضت کی کیا ضرورت ہے؟ تو حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :
’’اَوَلَا اَکُوْنُ عَبْدًاشَکُوْرًا۔‘‘ (صحیح بخاری)
یعنی کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگذاربندہ نہ بنوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ ا ورمقام پر فائز ہو جانے کے بعد بھی انسان کو شکرگذاربندہ بنناچاہیے ،اسی میں بھلائی ہے،کیونکہ یہی انبیاومرسلین کا عمل رہا ہے اور یہی صحابہ اور اولیائے کرام کا وظیفہ رہا ہے۔
عام طور پرانسان ،شیطان کے بہکاوے میں آکرہلکی سی تکلیف میں بھی ناشکری کر بیٹھتا ہے ،جبکہ اس کے پاس دوسری تمام طرح کی نعمتیں موجود رہتی ہیں۔دراصل شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اوروہ ہمیشہ اسی کوشش میں لگارہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بند ے کو ناشکرا بنادے اور اس کو اللہ سے دور کردے ،لیکن جو اللہ کا نیک بندہ ہوتا ہے اورجو ہمہ وقت شکر گذاری میں لگا رہتا ہے، اس پر شیطان کا کوئی بھی حربہ کارگر نہیں ہوتا۔ایسے ہی شکرگذار بندوں کے لیے یہ خوش خبری سناتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:
’’اَلطَّاعِمُ الشَّاکِرُ بِمَنْزِلَۃِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔‘(صحیح بخاری)
یعنی کھانا کھاکر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرنے والا ،اس روزے دار کی طرح ہے جس نے کھا نے سے صبر کیا ہو۔
گویا شکر گذاری بھی ایک عظیم عبادت ہے ،جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوبے شمارعطافرماتا ہے۔اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چھوٹی بڑی نعمت کے بدلے شکر ادا کرنے کی عادت ڈالے ،مثلاََگھرمیں کوئی اچھی چیز دیکھے تو شکر ادا کرے، اچھا کھانا پینا میسر ہوتو شکرادا کرے،گرمی میںٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا پائے توشکراداکرے ،کوئی کام پورا ہوجائے توشکر ادا کرے،سفرسے صحیح سلامت وطن لوٹ آئے تو شکراداکرے، غرض کہ ہر وہ عمل جس سے ، خوشی، راحت اورسکون کا احساس ہو، شکر اداکرے ۔
یہ شکر گذاری ہی کی یہ برکت ہے کہ انبیااورمرسلین کے بہت سارے اعمال عبادت کے خانے میں رکھے گئے ہیں ، مثلاََ:حج کے موقع پر ’’مقام ابراہیم‘‘ میں جو دورکعت نماز ادا کی جاتی ہے،وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شکرانے کی یادگار ہے جو انھوں نے تعمیر کعبہ کی خوشی میں بطور شکراداکیاتھا۔ رمضان میں پورے ایک مہینے روزہ رکھنے کے بعد جو دورکعت نماز ادا کی جاتی ہے وہ بھی شکرانے والی عبادت ہے۔
اس کے علاوہ آج دنیا میں بھی جب کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ کچھ بھلائی کرتاہے ،یااس کی مددکرتا ہے ،یااس کا بگڑاہوا کام بنادیتا ہے تووہ انسان فوراََاپنے بہتر سے بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’تھینک یو‘‘یا ’’شکریہ‘‘ کہے بغیرنہیں رہتاتوجب وہ مالک حقیقی جس نے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا،عزت وعظمت دی ،طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا، ہر طرح سے انسان کی مددکرتارہتاہے اور تاقیامت یونہی مدد کرتارہے گا،پھراس کا شکر کیوں نہ اداکیا جائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر ادا کرنا نہ صرف مذہبی اعتبار سے اہم ہے بلکہ سماجی اور معاشرتی اعتبارسے بھی اصلاح وسدھار کا عمدہ ذریعہ ہے ،کیونکہ اس کے سبب جہاں اللہ تعالیٰ کا انعام حاصل ہوتا ہے وہیں آپس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اوربھائی چارے کا جذبہ بھی پیدا ہوتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ شکراداکرنے کی توفیق بخشے ۔
(آمین بجاہ سید المرسلین)
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں