سورۂ عصر
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
’’وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔‘‘یعنی زمانہ کی قسم ایمان والے، نیک عمل کرنے والے ، حق کی وصیت کرنے والے اور صبر کی تلقین کرنے والوں کے سوا پورے انسان گھاٹے میں ہیں۔
اس سورہ میں خاص طورپر درج ذیل چیزوں کابیان ہواہے:
وَالْعَصْر:
یعنی وقت اورزمانہ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہی معنی مراد ہے ۔حضرت ابو مسلم کا قول ہے کہ عصر سے مراد ،دن کے دونوں حصے یعنی صبح وشام ہیں ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ: عصر سے مراد زوال سے لے کر غروب تک کا وقت ہے اور حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ دن کا آخری حصہ مراد ہے۔
اللہ دن کے اس حصے کی قسم کھاکر بندے کو تنبیہ فرمارہاہے کہ اب بازار کا وقت ختم ہونے والاہے کمانے کا وقت ختم ہورہاہے ،ابھی بھی خاموش بیٹھے رہے اور کچھ کمائے بغیر گھر لوٹے تو بچے اپنا حق مانگیں گے اور تمھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ایسے ہی دنیا کا وقت قیامت سے بہت قریب ہے۔ تم نے ابھی تک اس گھر کے لیے تیاری نہیں کی ہے حالانکہ تمھیں خوب معلوم ہے کہ کل اُن تمام نعمتوں کا تم سے سوال ہوگا جو تمھیں دنیا میں دی گئی تھیں۔ اسی طرح بندوں کے ساتھ تمھارے معاملات کے بارے میں بھی تم سے پوچھا جائے گا ۔ہر مظلوم کو اس کا حق دلوایا جائے گا اس وقت تم خسارے اور گھاٹے میں ہوگے ۔
الانسان:
انسان سے مراد جنس انسان ہے جس میں مومن اورمشرک سب شریک ہیں یا پھر انسان سے مراد خاص انسان یعنی کافر مراد ہے۔ اگر جنس انسان مرادہو تو ایسی صورت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھا نے والا وہ کافر ہوگا جو اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرائے اور کم نقصان والا وہ مومن ہوگا جو عمل صالح کے ساتھ برائی کی بھی آمیزش کرے ۔
خسر:
اس لفظ کا معنی ہے اصل مال کا ختم ہونا یا اس میں نقصان ہونا ۔لفظ’خسر‘میں تنوین تعظیم کے لیے ہے جس کا معنی ایسا نقصان ہے جس کی حقیقت صر ف اللہ کو معلوم ہو۔
علامہ فخر الدین رازی اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ:ہرشخص گھاٹے اور نقصان میں مبتلا ہے ،کیوں کہ انسان کی اصل پونجی اس کی زندگی ہے جو تیزی کے ساتھ گذر رہی ہے۔
اگر انسان معصیت اور گناہ میں مصروف ہے تو یہ اس کے نقصان کا باعث ہے اور اگر جائز کام میں زندگی گزاررہا ہے تو بھی خسارے میں ہے، کیوں کہ بندہ ایسے کام پر قادر تھا جس سے فائدہ حاصل ہو، قدرت کے باوجود بے فائدہ کام میں لگے رہنا نقصان دہ ہے۔ہاں! اگر طاعت وعبادت میں بندہ زندگی گزارے توعبادت کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہے ،اگر اعلیٰ اور عمدہ کیفیت کے ساتھ عبادت کرسکتا تھا لیکن اس کے باوجود اس طریقے کو چھوڑ دیا تو یہ بھی ایک قسم کا نقصان ہے ۔
اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا (مومنین)
یعنی وہ لوگ جواللہ کی تصدیق اور وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں
ایمان:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے جو کچھ لے کر آئے اُن تمام کی اس طرح تصدیق کرنا کہ ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہ ہو۔
وَعَمِلُوْا الصَّالَحَاتِ (صالحین)
اور جو کچھ اللہ نے ان کے ذمے لازم کیا ہے اُسے انجام دیتے ہیں اور حرام کا موں سے بچتے ہیں ۔
عمل صالح:
یعنی ایسے عمل جس کے اندر کسی طرح کا فساداورخرابی نہ ہو، اللہ تعالی فرماتاہے:
’’وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء۔‘‘(البینہ:۵) بندوں کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ تمام چیزوں سے منہ موڑ کر صرف اللہ ہی کی عبادت کریں۔
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ :(حق کی وصیت)
حق سے مراد ایسا یقینی امرہے جس کا انکار نہ کیا جاسکے ،مثلا اللہ ،ایمان، قرآن یا ہر وہ نیک امر جو اعتقاد یا عمل سے تعلق رکھتاہو، اگر حق سے مراد اللہ ہو تو اب معنی یہ ہو گا کہ بندے کے حال کے مطابق اللہ کے غضب کا خوف اور اس کی رحمت کی امید دلاتے رہے اور اگر ایمان وقرآن دونوں مراد ہوں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ایمان کے تقاضوں اور قرآنی احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین اور وصیت کرے۔
وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ:(صبرکی تلقین)
یعنی ایک دوسرے کو طاعت پر جمے رہنے اور گناہوں سے بچنے کی وصیت کرتے ہیں۔صبر ایک ایسی قوت کا نام ہے جس سے انسان مشقتوں اورمصیبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو ۔
دیلمی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبر کی تین قسمیں ہیں:
۱۔مصیبتوں پر صبر کرنا
۲۔طاعت وبندگی پر جمے رہنا
۳۔گناہوں سے الگ رہنا۔
جواپنی تجارت میں نقصان اٹھانے والے نہیں ہیں ، ان کے اندر چار صفتیں موجود ہوتی ہیں :
۱۔ایمان
۲۔عمل صالح
۳۔حق کی وصیت
۴۔ صبر کی تلقین
خسارے اور نقصان سے بچنے کے لیے محض ایمان وعمل کافی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو خیر کی دعوت اور صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالی نے زمانے کی قسم کھاکر انسانیت کی ہلاکت ونجات اور نفع ونقصان کو اس سو رۃ میں بیان فرما یا ہے ۔ہلاکت انسان کا مقدر ہے وہ کبھی بھی اس سے نہیں بچ سکتا، کیوں کہ ہر لمحہ انسان پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، جس کی واضح دلیل نفس انسانی یعنی سانس ہے اور ظاہر ہے کہ بندہ ہر سانس کے بدلے شکر ادا کرنے سے مجبور ہے لیکن اس کے باوجود اللہ نے محض اپنی رحمت سے ہمیں یہ درس دیا کہ اگر ان خوبیوں کا تم حامل ہوجائو تو تمہاری برائیاں ،بھلائیوں میں بدل جائیں گی ۔
غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے زمانے کی قسم کھاکر یہ واضح اشارہ کردیاہے کہ ایک پر امن اور منظم معاشرے کا وجود اسی وقت ممکن ہے ،جب ہر شخص ایک اللہ کو حاکم ،مالک اور متصرف مانے ،پھر اسی کے حکم کے مطابق عمل کرے اور عمل کی تلقین کرے تو یقیناًیہ باتیں اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں امن و امان کی ضامن ہوںگی ۔
اے اللہ :ہم سب کو مومنین، صالحین اور صابرین کی صف میں شامل کرے۔( آمین )


0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں