سورۂ فاتحہ
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
إِیَّاکَ نَعْبُدُ :ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ:اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔
اس آیت میں إِیَّاکَ،نَعْبُدُاورنَسْتَعِیْنُ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معانی کے اعتبار سے تفصیلی بحث کے طالب ہیں، لیکن یہاں صرف اُن معانی اور مطالب کو بیان کیا جا رہا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آ سکیں اور ان کے لیے اُسے یاد رکھنا بھی آسان ہو۔
إِیَّاکَ: اس کا معنی ’تیری ہی‘ہے ،یہاں یہ لفظ خصوصیت بتانے کے لیے آیا ہے کہ عبادت صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہے،غیر اللہ کے لیے نہیں۔اب اگرکوئی نماز پڑھے اوراس کے دل میں یہ تصورنہ آئے کہ وہ عبادت صرف اورصرف اللہ کے لیے کررہا ہے تواُس کی عبادت ،عادت میںتوشمارہوگی عبادت میںنہیں۔
نَعْبُد:اس کامعنی ’ہم عبادت کرتے ہیں‘ ہے۔ عبادت لغت میں انکساری اور عاجزی کرنے کوکہتے ہیں اور شریعت میں اُس عمل کو عبادت کہتے ہیں جو کامل محبت وعظمت، عاجزی وانکساری اور خوف وڈر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے۔اگر اُن تینوں میں سے ایک چیز بھی رہ گئی تو بندہ کا وہ عمل عبادت نما تو کہلائے گا ،عبادت نہیں ۔
یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نمازکے بارے میں فرمایاہے :
وَ اِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْاكُسَالٰی یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا۱۴۲ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَۗ لَا اِلٰی هٰؤُلَآءِ وَ لَا اِلٰی هٰؤُلَآءِ۱۴۳ (نسا)
یعنی جب منا فقین نماز پڑھتے ہیں توبڑی کاہلی اور سستی کے ساتھ پڑھتے ہیں ،وہ بھی لوگوں کے ڈر سے تاکہ انھیں کوئی مشرک وکافر نہ سمجھے ،وہ اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں اور تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں، نہ وہ خالص مومن ہیں اور نہ کھلے ہوئے کافر۔
گویا وہ ریا اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں جب کہ مخلوق نہ نفع دینے والی ہے اورنہ نقصان پہنچانے والی ، نفع اور نقصان کا مالک توصرف اللہ ہے، اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنا ہرعمل اورعبادت صرف اللہ کے لیے کرے ، یعنی یہ گمان کرے کہ ہر حال میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے اور اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:وَ مَااُمِرُوْااِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۵ (بینہ)
یعنی بندے کو خالص اللہ کے لیے عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
منافقین کایہ حال محض اسی وجہ سے تھا کہ ُان کے دل میں نہ اللہ کی محبت تھی نہ اللہ کا خوف اور نہ اس کی کبریائی کا تصور تھا،اگر واقعی یہ تینوں چیزیں بندے کے دل میں جاگزیں ہوجائیں تو ہر حال میں خواہ آسانی ہو یا تنگدستی ،غم ہو یا شادمانی ہر عبادت وہ اللہ کو حاضر وناظر جان کر کرے گا ۔
علما کے نزدیک ہر وہ عمل عبادت میں شامل ہے جس سے اللہ کے حکم کی تابعداری ثابت ہوتی ہو،جیسے نماز،روزہ،حج، زکاۃوغیرہ اداکرنا،اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کامطلب یہ ہے کہ اس کی غلامی وبندگی کا مکمل اظہارہو،یعنی اللہ کے ہر حکم پر بلا ترددسرنیاز خم کرنا۔
نَسْتَعِیْنُ:اس کلمہ کا معنی ’’ہم مدد چاہتے ہیں‘‘ہے اور مدد چاہنے کامطلب یہ ہے کہ یہ مددخواہ براہ راست ہو یا براہ راست نہ ہو،ہر طرح کی مدد اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،کیونکہ حقیقی اور اصل مددگاراللہ ہی کی ذات ہے اور باقی جتنے مددکرنے والے ہیں وہ سب ذریعہ اور عون الٰہی کے مظہر ہیں۔
چنانچہ جب بندہ نماز کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب ہوتا ہے تو وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوتاہے ، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بندہ جب :إِیَّاکَ نَعْبُدُوَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ھٰذَا بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَألَ۔
ترجمہ:یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میں اپنے بندے کی ہر خواہش پوری کروںگا ۔
لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ بندہ خودکو اپنے رب کے حوالے کردے،اللہ کی رضامیں ہمیشہ راضی رہے ، ہر حال میں اللہ پرمکمل اعتمادوبھروسہ رکھے اور اللہ ہی کو اپنا وکیل بنائے کہ سارے جہانوںمیں اس سے بہتر کوئی وکیل نہیں ہوسکتا۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے:
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا ۵ (سورہ ٔمزمل )ترجمہ:وہ پوری کائنات کا رب ہے اس کے سوا کوئی معبودنہیں، تم اسی کو اپنا کار ساز بنائو ۔
مزیداللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۱۲۳ (سورۂ ہود)
ترجمہ:تم لوگ خدا کی عبادت کرواورا سی پر بھروسہ رکھو، تمہارا رب تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ بعض اسلاف کرام کا کہنا ہے کہ:
’’ سورئہ فاتحہ قرآن کا راز ہے اور سورئہ فاتحہ کا راز: إِیَّاکَ نَعْبُدُوَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُہے ۔‘‘
اس طرح دیکھا جائے تو اس آیت میں توحید اورتوکل علی اللہ دونوں کے معانی موجودہیں کہ عبادت صرف ایک ہی ذات کے لیے ہے اور وہ اکیلی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے،کیونکہ جو عظمت اور کبریائی اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے وہ نہ کسی کو حاصل ہے اور نہ کسی کو حاصل ہوسکتی ہے ۔اسی طرح حقیقت میں اعتماد کے قابل صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے،اس کے سوا کوئی بھروسہ کے لائق نہیں۔
اس لیے ہر مسلمان اور ایمان والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کو معبودجانے اور ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد رکھے کہ اصل معنوںمیں وہی عبادت کے لائق ہے اور وہی بھروسے کے قابل ہے۔
سجدۂ در جو تمہارا نہ میسر ہوتا
وہی ہم ہوتے وہی سر وہی پتھر ہوتا
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں