سورۂ فاتحہ
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔
ہمیں سیدھی راہ چلا۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔
اُن کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ۔
نہ کہ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیر ا غضب ہے اور جو راہ حق سے بھٹک گئے ہیں ۔
اس آیت مقدسہ میں واضح طورپرجن چار امور کا ذکر کیاگیا ہے،وہ یہ ہیں:
۱۔ہدایت
۲۔صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ
۳۔انعام پانے والے یعنی اللہ کے مقبول بندے
۴۔اللہ کے غضب پانے والے گمراہ لوگ
ہدایت :
ہدایت کا معنی لطف و مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنے اور راستہ بتانے کے ہیں ۔در اصل یہ نبی اور تمام مسلمانوں کی دعا ہے ،اگرچہ وہ پہلے ہی سے آسمان ہدایت پر تھے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے استقامت اور مزید ہدایت طلب کرنے کے لیے دعاکی تعلیم فرمائی ہے ،کیونکہ بندہ ہر حالت میں اور ہر وقت خدا کا محتاج رہتا ہے، اُسے یہ نہیں معلوم کہ اس کے حق میں کیا مفید ہے اورکیا نہیں،اُسے اس بات کابھی علم نہیں کہ کون سی چیز نقصان دینے والی ہے اور کون سی چیز نہیں ، اس لیے ہر آن اللہ سے مدد، اس کی توفیق اور دین اسلام پر ثابت قدم رہنے کی دعاکرتا رہے ۔ایک مقام پر اللہ رب العزت بندوں کو دعا کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس طرح دعاکرو:
’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَامِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ ‘‘
(سورہ آل عمران، آیت:۸)
ترجمہ:اے اللہ !ہدایت کے بعد ہمارے دل میں کجی پیدانہ کر اور اپنی خاص رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی خوب دینے والاہے ۔
صراط مستقیم :
یعنی سیدھا راستہ ،مراد وہ راستہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول تک پہنچانے والا ہو۔جس پر ابنیا،صدیقین ، شہداوصالحین چلتے رہے ہیں۔یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے ۔چنانچہ جو مومن بندہ صراط مستقیم پراپنی زندگی کی گاڑی کو ڈال دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے بلکہ اس کی ہر جائز دعا کو قبول بھی فرماتاہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاارشادہے کہ:
’’جب(بندہ) اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ۔کہتا ہے تو رب تعالیٰ فرماتا ہے:
ھٰؤُلَائِ لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَاَلَ۔
یعنی یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میں اپنے بندے کا ہر سوال اور ا س کی ہر دعا قبول کروں گا ۔‘‘ ( سنن ابوداؤد )
جو لوگ صراط مستقیم پر چلتے ہیں اُنھیں لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:’’اَدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔‘‘
(سورہ مومن، آیت:۶۰)
یعنی تم مجھ سے مانگو میں تمھاری دعا قبول کروںگا، یعنی:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی رہرو منزل ہی نہیں
انعام پانے والے:
انعام پانے والی جماعت سے مرادانبیا وصدیقین اورشہدا وصالحین کی جماعت ہے ،قرآ ن مجید میں ہے:
’’جو لوگ اللہ و رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیا ، صدیقین ،شہدا اور صالحین ۔‘‘
انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کوکامل طریقے پر اطاعت الٰہی میں لگا دے اور اس کے ہر فیصلے پر راضی ہو ۔اپنے اخلاق و کردا رانبیاومرسلین کی سیرتوں کے مطابق رکھے ۔اگر اُسے یہ حکم ملے کہ اپنے بیٹے کو ذبٗح کردو تو حضرت ابراہیم و اسمعٰیل علیہماالسلام کی طرح قربان کرنے اور قربان ہونے کے لیے تیارہوجائے۔ اگر اُسے دین کا داعی اور مبلغ بنایا جائے تو حضرت یحییٰ اور زکریا علیہما السلام کی طرح آرے سے چیر بھی دیا جائے تو اُف تک نہ کرے ۔اگر سخت بیماری میں مبتلا ہو تو حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔اگر بادشاہ اورحاکم بنادیا جائے تو عبادت و ریاضت اورشب بیداری کو نہ بھولے، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام پوری دنیا پر بادشاہت کرنے کے باوجود بھی اطاعت الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوئے ۔ اگر حسین و جمیل اورجان سے پیارا بیٹا غائب ہو جائے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح صبرسے کام لے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی طرح مچھلی کے پیٹ میں ہویا حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح قید خانے میں، ہرحال میں اللہ کی پاکی اور اس کی حمدوثنا کرتارہے اور دعوت و تبلیغ جیسے اہم فریضے میں ہمہ وقت لگا رہے ،ایسے ہی جذبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کویہ تعلیم دی کہ انعام یافتہ لوگوں یعنی انبیا، صدیقین ، صالحین اورشہداکی راہ پر قائم رہنے کی دعاکرو ۔
مغضوب اورگمراہ
زمانۂ نبوی میں دو مشہور جماعت تھی ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے والی ،جسے یہودی کہا گیا اور دوسری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والی جسے نصاریٰ اور عیسائی کہاگیا ،یہ جماعتیں آج بھی موجودہیں۔اللہ رب العزت نے علم کے باوجود یہود کے غلط ارادے اور عمل نہ کرنے کی وجہ سے اُن پر غضب فرمایا جبکہ نصاریٰ اپنی عبادت کے سبب غرورمیں آگئے اورپھرعلم سے خالی ہونے کے سبب گمراہ ہو گئے ۔
لہٰذامعلوم ہواکہ صراط مستقیم اُس راستے کا نام ہے جس پرچلنے والے نہ صرف عالم ہوں اور نہ محض عامل، بلکہ علم و عمل دونوںکا جامع ہوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل بھی ہو۔
نبوت کا سلسلہ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے، لیکن صادقین، شہدا،صالحین کی جماعت آج بھی موجودہے ا ور قیامت تک موجودرہے گی، یہ جس راہ پر ہوں گے وہی صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ ہوگا۔
ہمیں چاہئے کہ ایسے نفوس قدسیہ کی تلاش و جستجو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح سرگرداں رہیں اور اپنی خواہشات کو محبت الٰہی کی آگ میں جلاکر مردہ نفس اور روح کو زندہ کریںاویہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے دلوں میں اللہ ورسول کی سچی محبت اور خشیت پیدا ہوگی۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں