Surah Al-Qadr

 سورۂ قدر

مولانا اشتیاق عالم مصباحی 

اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ:
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فیِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،وَماَاَدْرٰکَ ماَلَیْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْلَۃُ الْقَدْرِ،خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍتَنَزَّلُ الْمَلَائِکۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ،سَلَامٌ ھِیَ حَتیّٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘(سورۂ قدر)
ترجمہ:بے شک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا، اورتم نے کیا جانا کہ شب قدر کیاہے،شب قدر ہزارمہینوں سے بہترہے ،اس میں فرشتے اورجبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ،یہ سلامتی والی رات ہے صبح ہونے تک۔
اس سورہ کے نزول کے تعلق سے دو اقوال ہیں:
۱۔ مکہ مکرمہ میں نزول ہوا۔
۲۔ مدینہ منورہ میں نزول ہوا۔
 سورہ ٔ قدرمیں جن امور کا ذکرکیاگیا ہے وہ یہ ہیں:
۱۔ قرآن مقدس کا نازل ہونا۔
۲۔شب قدرکا ہزارمہینوںسے بہترہونا۔
۳۔شب قدر میں فرشتے اور جبریل کااترنا
۴۔ صبح ہونے تک سلامتی کی دعا واستغفارکرنا
نزول قرآن
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’حٰم ،وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ،اِنَّااَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ۔‘‘(دخان:۳-۱)
ترجمہ:کتاب مبین کی قسم ہم نے قرآن کریم کو برکت والی رات میں نازل کیا۔
اس میں کتاب مبین سے مراد قرآن مقدس ہے۔
تفسیر حسینی میں ہے:
 قرآن کریم کے نزول کی ابتدا شب قدر میں ہوئی،یا یہ کہ مکمل کلام الٰہی کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیاپر شب قدر میں نازل ہوا،اوراسے بیت العزت میں رکھ دیاگیااورپھر حضرت جبریل علیہ السلام ضرورت کے مطابق ایک ایک آیت یا ایک ایک سورہ۲۳سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا میں لاتے رہے۔(ت)
لیلۃالقدر
 ’لیل‘کا معنی ہے رات اور’قدر‘کا معنی ہے عزت وعظمت ا ورشرف وبزرگی تو اب ’’لیلۃ القدر‘‘کے معنی ہوئے عزت وعظمت اور شرف والی رات۔
 اس رات کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس رات قرآن مقدس جیسی عظیم کتاب انسانوںکی ہدایت کے لیے اتاری گئی، پھرتجلیات الٰہی کانزول اس کی بزرگی اوربرتری کو بتاتاہے، صاحب عرائس البیان لکھتے ہیں:
تِلْکَ اللَّیْلَۃُ مِنْ کَشْفِ جَمَالِہٖ لِلْعَارِفِیْنَ ، وَاَھْلِ شُھُودِہٖ مِنَ الْمُقَرِّبِیْنَ،قَدَّرَمَنَازِلَھُمْ فِی مَقَامِ الْمَعَارِفِ وَالْکَوَاشِفِ،وَقَدَّرَمَقَادِیْرَ الْغُیُوبِ،وَاَبْرَزَاَنْوَارَمَلَکُوْتِہٖ وَجَبَرُوتِہٖ لِاَھْلِ الْقُلُوبِ،لِذٰ لِکَ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ،یُبَشِّرُوْنَھُمْ بِالْوِصَالِ، وَکَشْفِ الْجَمَالِ اَبَداً۔‘‘(ص:۵۱۹)
یعنی اس رات میں عارفین اور مقربین پر اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی ظاہرہوتی ہے اور کشف ومعرفت کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ان کے منازل متعین فرماتا ہے اور ان پر بہت ساری پوشیدہ باتیں کھول دیتا ہے، اہل دل پر اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کے انوار واضح ہوتے ہیں ،یہی سبب ہے کہ فرشتے اور حضرت جبریل اس رات میں اترتے ہیں اور انھیں وصال اور ہمیشگی کے جمال کی بشارت دیتے ہیں۔
فرشتوں کا اترنا
امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں:
’’تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ‘‘  سے معلوم ہوا کہ حضرت جبریل کے ساتھ تمام فرشتے اللہ  رب العزت سے اجازت طلب کرتے ہیں اور جب انھیں اجازت مل جاتی ہے تو قطاردرقطارصف باندھے ہوئے زمین پراترتے ہیں اور یہ عمل مومنین سے ان کی محبت کو ظاہرکرتاہے۔
فرشتوں کے اترنے کی حکمتیں تو بہت ہیں لیکن ان میں جو اہم معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے ،بقول امام رازی:
انسان کی عادت ہے کہ وہ علما اور صالحین کے سامنے زیادہ خشوع اورخضوع سے عمل کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانو!
تم عبادت گزاروں کی مجلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو،آؤ!اب فرشتوں کی مجلس میں خشوع اورخضوع سے عبادت کرو۔( تبیان القرآن) 
ہر امرکے لیے سلامتی
’’مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلاَمٌ‘‘کے تحت آیا ہے کہ:
لَمَّا بَشَّرَھُمْ بِاَعَالِی الدَّرَجَاتِ وَسَنَی الْکَرَامَاتِ وَسَلاَمَتِھِمْ مِنْ جَمِیْعِ الْبَنِیَّاتِ،یُسَلِّمُ عَلَیْھِمْ وَ یُصَافِحُھُمْ، لِتَصِلَ بَرَکَاتُ بَعْضِھِمْ اِلٰی بَعْضٍ(عرائس البیان)
یعنی مومنین کو بلند رتبے اور عظیم بزرگی اورتمام نقصان دہ چیزوں سے سلامتی کی بشارت دی جاتی ہے ، فرشتے مومنین کوسلام کرتے ہیںاور اُن سے مصافحہ کرتے ہیںتاکہ اس رات کی برکتیں ایک دوسرے تک بخوبی پہنچ جائیں۔
امام رازی فرماتے ہیں:فرشتوںکا سلام کرنا ،سلامتی کا ضامن ہے ۔سات فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پرنمرودکی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی۔شب قدر کے عابدین کو جب انگنت فرشتے آکر سلام کرتے ہیں تویہ امید کیسے نہ کی جائے کہ جہنم کی آگ مومنین پر بھی سلامتی کا باغ بن جائے گی۔ (تبیان القرآن)
 مزید برآں یہ رات سراپا سلامتی والی ہے ،فرشتے رات بھر بندگان خدا پر سلام بھیجتے رہتے ہیں،مثلا:فرشتوں کی ایک فوج جاتی ہے تو دوسری آتی ہے اور اس طرح تانتابندھارہتاہے۔
اور یہ عمل فجرہونے تک جاری رہتاہے،اسی کو ظاہر کرنے کے لیے فرمایاگیا:’’ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ رات کے ایک حصے میں فرشتے آتے ہیں اور چلے جانے کے بعد پھر نہیں آتے بلکہ رات کے ہر حصے میں فرشتوں کا آناجانالگارہتاہے۔



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0