طلبۂ مدارس سے چند باتیں
شوکت علی سعیدی
عصری علوم و فنون کی ضرورت کیوں؟
دنیا تغیر پذیر ہے، جب ایک شعبے میں تبدیلی آتی ہے تو راست طور پر دوسرے شعبے پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ ۲۱ویں صدی میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے دوسرے تمام شعبہائے علوم و فنون پر اپنا اثر ڈالا، خیالات و نظریات میں تبدیلیاں آئیں، معیار کو غیر معیار بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے۔ اس صورت میں دوسرے شعبے بھی اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہوئے اور پیشہ ورانہ کورسیز کا رواج ہوا۔ تعلیم کو تجارت کی شکل دے دی گئی۔ اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے عصری علوم کی ضرورت ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر نہ ہی سماج کے مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی منفی نظریے اور اثرات کے روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے۔
مدارس کے طلبہ عصری علوم کیوں حاصل کریں؟
طلبہ مدارس محنتی ، تحصیل علم میں مخلص اور اپنی قوم کی اصلاح و فلاح کا گراں قدر جذبہ رکھتے ہیں۔ ان عمدہ خصائل اور مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ اگر وہ عصری علوم سے بھی مالا مال ہوں تو وہ ایک عظیم انسان بن کر قوم کے لیے بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
عصری علوم کی تحصیل سے قبل کے لوازمات
مدارس کے طلبہ چونکہ تعلیم حاصل کرنے کا بڑا حصہ مدرسے میںگزارتے ہیں ، اب اگروہ عصری ادارے میں حصول تعلیم کا ارادہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی عمر، اپنے گھر والوں کی امیدیں اور مالی ذرائع کا ضرور ضرور اندازہ کر لیں، اگر کسی طالب علم کو ایسا لگتا ہے کہ اسے تعلیمی خرچ نہیں مل سکتا تو اسے اس شخص سے الگ ہدف بنانا پڑے گا جسے تعلیمی خرچ مل رہا ہے۔ اسی طرح اگر حالات دو یا تین سال پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں تو اس کے لیے بھی ایک خاص ذہن کے ساتھ کسی میدان میں قدم رکھنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ وہ تعلیمی مراحل کے وسط میں ہی رک جائیں، جیسا کہ عموماً اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس لیے مستقبل کی صحیح تعمیر و توسیع کے لیے جذباتی اقدام کے بجائے سنجیدگی سے غور و فکر کر لیں اور اس کے ساتھ اپنی عمر کا تجزیہ بھی ضروری ہے تاکہ صحیح وقت پر حصول علم کے ساتھ عملی میدان میں بھی وہ حصہ لے سکیں۔
اپنی گزشتہ عمر کا تجزیہ کر کے ہدف کا تعین
طلبۂ مدارس اپنے اگلوں کے نقش راہ کو دیکھتے ہوئے اپنا قدم آنکھ بند کر کے آگے بڑھانا شروع کر دیتے ہیں ، جو مناسب نہیں ہے،بلکہ ان طلبہ کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی گزشتہ سرگرمیوں کا تجزیہ کریں اور اس سے نتیجہ نکالیں کہ میں کیا کر سکتا ہوں اور کس میدان میں کامیاب ہو سکتا ہوں، جس میدان کا انتخاب کریں اس میں نامور، ماہر اور کامیاب اشخاص کو آئیڈیل بنائیں۔جو بھی ہدف متعین کریں اس پر پورا یقین رکھیں اور اسے متزلزل ہونے سے ہر وقت بچائیں۔ اگر کوئی طالب علم ایسا کرتا ہے تو ضرور اسے اپنے ہدف کو پانے میں کامیابی ملے گی۔
مضامین کا انتخاب
مضامین کا انتخاب کردارسازی اور کیریر بنانے میں بہت ہی اہم رول ہوتا ہے، کوئی ڈاکٹر بننا چاہے اور آرٹس کے مضامین میں وہ محنت کرے تو وہ کبھی بھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا، وہ بائیلوجی، فیزکس، کیمسٹری پڑھتے ہوئے ہی اپنا ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔
مدارس کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ جومتعینہ ہدف کے لیے ایک ضابطہ بنائیں پھر اسی کے مطابق عمل کر کے اپنے مقصد کی حصول یابی اور متعلقہ مضمون کی معلومات کی فراہمی میں یکسوئی کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ اس لیے کہ ایک انسان ہر میدان کی طرف نظر کرتے ہوئے اپنی منزل کو کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ داخلہ سے پہلے اپنے مضامین کے انتخاب میں خوب غور و فکر کر لیں۔
کورسیز کا انتخاب
عصری درس گاہوں میں کورسیز اس طور پر ہوتے ہیں کہ اس سے خود بخود ایک راہ بن جاتی ہے۔ کسی بھی کورس میں داخلہ لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں اپنی کیریر کا انتخاب۔ اس لیے کسی بھی کورس میں داخلہ لینے سے پہلے یہ اندازہ کر لیں کہ کیا ہم اس کورس کے ذریعے اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کورس کی میعاد کیا ہے؟ اور اپنے پاس کتنا وقت ہے؟ ان سب کا تجزیہ لازمی ہے۔ ساتھ ہی کورسیز میں خرچ کا بھی اندازہ کر لینا ضروری ہے۔ اگر طلبہ ان سب کو نظر میں رکھ کرکسی کورس کا انتخاب کرتے تو وہ ہدف پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
کالج اور یونیورسٹی کا انتخاب
مختلف کالجوں میں مختلف کورسیز ہوتے ہیں ، کلچر کے اعتبار سے ، تعلیمی معیار کے اعتبار سے ایک کالج دوسرے کالج سے مختلف ہوتا ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے مناسب کلچر اور معیار تعلیم کا انتخاب کر کے کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر مطمئن رہ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔
مثبت نظریہ کی تعمیر
کوئی بھی کالج یا یونیورسٹی ہو، فکری و ثقافتی اعتبار سے اس کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ آزادیٔ فکر تو ہر جگہ ہے لیکن وہ آزادیٔ فکر بھی ایک خاص فکری شعبے سے متعلق ہوتی ہے۔ مدارس کے طلبہ مدارس سے مضبوط فکر لے کر آتے ہیں اور یہاں پر انھیں مختلف افکار و نظریات سے ٹکراؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان کے اندر اپنی مضبوط فکر کو محفوظ رکھنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے تو وہ غیر کے افکار سے مرعوب ہوجاتے ہیں اوراپنے اسلاف کے افکار انھیں ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ مضبوط و توانا فکر کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھیں ورنہ بہتر یہ ہے کہ جتنی تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور جو صلاحیت و لیاقت ہے اسی کے ذریعے مذہبی و معاشرتی خدمات کریں اور وہیں اپنی زندگی کو روشن و تابناک بنائیں۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں