توبہ
رفعت رضا نوری
توبہ کا لغوی معنی ہے گناہوں سے منھ پھیر کر کے اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔
در اصل انسان کی تخلیق کا تقاضا اور اس کی فطرت کی حقیقت یہی ہے کہ وہ اللہ ہی کی طرف متوجہ رہے اور اس کی عبادت کی طرف مائل رہے، لہٰذا جب کوئی بندہ اس حالت سے کسی غیر فطری حالت کی طرف جاتا ہے تواسی غیرفطری حالت سے اپنی اصل حالت کی طرف پلٹنے کا نام توبہ ہے، جیسے انگریزی میں ہم
TO BACK TO THE REAL STATE
یعنی حالت اصلی کی طرف پلٹنا‘کہہ سکتے ہیں ۔
توبہ کے لیے کوئی مخصوص وقت اور زندگی کی کوئی مخصوص مدت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
’’وَ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعاً اَیُّھَا الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔‘‘ (سورۂ نور:۳۱)
ترجمہ: اور اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ کی جانب رجوع کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
امام غزالی قدس سرہ توبہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اللہ سے دور کرنے والے اور شیطان سے قریب کرنے والے راستے سے پلٹنے کا نام توبہ ہے۔‘‘
حضرت حسن بصری قدس سرہ فرماتے ہیں:
بندہ پچھلے گناہ پر نادم ہو اور پکا ارادہ کرے کہ وہ دوبارہ اس گناہ کو نہیں کرے گا۔
حضرت شیخ حسن الفازلی سے توبہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ تم مجھ سے‘ توبہ انابت‘ کے بارے میں دریافت کرتے ہو یا’ توبۂ استجابت‘ کے بارے میں؟
سائل نے کہا :توبہ انابت کیا ہے؟ فرمایا: وہ یہ ہے کہ تم خدائے بزرگ و برتر سے اس لیے ڈرو کہ وہ تم پر قادر ہے۔
اس نے کہا: توبۂ استجابت کیا ہے؟ فرمایا: وہ یہ ہے کہ تم اللہ سے اس لیے شرماؤ کہ وہ تم سے قریب ہے۔
یہی وہ توبہ ہے کہ اگر یہ کسی بندۂ حق کے دل میں بس جائے تو وہ نماز میں بھی اللہ کے ذکر کے علاوہ ہر تصور اور وسوسہ سے توبہ و استغفار کرے۔ یہ توبۂ استجابت مقربین بارگاہ کے باطن میں لازمی طور پر موجود ہوتا ہے۔
انسان کا اچھی بری خصلتوں سے متصف ہونا، خطا کرنااور نادم ہونا اس کی سرشت میں داخل ہے، اگر یہ دونوں ساتھ ساتھ رہے تب بھی غنیمت ہے ۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ انسان مسلسل غلطیاں کرتا جا رہا ہے،مگر اس سے پلٹنے کی فرصت نہیں ہے، گناہ اور غلطی سماج کے افراد کے اعتبار سے ہوتی ہے، سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ خدا کے وجود ہی کاسرے سے انکار کر دیا جائے یا اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، جب کہ اللہ ان دونوں باتوں سے پاک ہے۔
اس برے خیالات سے توبہ یہ ہے کہ اللہ کو اس طرح موجود مانا جائے کہ کوئی بھی اللہ کی ذات، صفات اسما اور افعال میں شریک نہیں، کیونکہ کسی کو اللہ کا شریک ماننا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اسے اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا،ایسے برے عقیدے سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی:
میرے فرزند! کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا،بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
اب جب کہ انسان کفر و شرک سے توبہ کر کے دین میں داخل ہو گیا اور اللہ کی ذات و صفات کا یقین ہو گیا تو اگلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام کی پیروی کرے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز آجائے،اگر ہم اللہ کے وجود پر ایمان لائیں اور اس کے سیدھے راستے کی پیروی میں خیانت کریں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے دنیا کی عدالت کو تو مانا مگر جج کے فیصلے کو نہیں مانا تو جس طرح دنیا کی عدالت میں ہمیں جواب دینا پڑے گا اسی طرح آخرت کی عدالت میںبھی جواب دینا ہوگا،بلکہ اس سے بھی زیادہ سختی سے جواب مانگا جائے گا۔
یہ عجیب تماشا ہے کہ اللہ پر ایمان کا دم تو بھرتے ہیں مگر نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور دوسرے احکام سے روگردانی بھی کرتے ہیں ۔ اس نافرمانی اور سرکشی سے توبہ یہ ہے کہ ہم دل و جان سے اس کے احکام کو مانیںاور اس پرعمل بھی کریں، اللہ فرماتا ہے:
’’وَأَقِیْمُواْالصَّلاَۃَ وَآتُواْ الزَّکَاۃَ وَارْکَعُواْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ‘‘(سورۂ بقرہ:۴۳)
ترجمہ:اور نماز ادا کرو اور زکوۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
یہ باتیں اس سے متعلق تھیں کہ اگر حقوق اللہ کے ادا کرنے میں خیانت کرتا ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ تمام حقوق کو پوری یکسوئی اور خلوص کے ساتھ خالص اللہ کے لیے ادا کرے، لیکن کیا محض اسی سے ہماری شخصیت کی تکمیل ہوگئی؟ نہیں۔۔۔
اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ انسان بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بھی کسی قسم کی کوتاہی کرتا ہے تو اس کابھی مواخذہ ہوگا، اس لیے ہمیں اپنے سماج، افراد، رشتے دار، پڑوسی، فقرا اور دوسرے متعلقین کے حوالے سے بھی حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ و رسول نے مذکورہ افراد کے ساتھ حسن سلوک، نرم گفتاری، سخاوت و دیانت، احسان و امداد اور ان کے جائز حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ۔‘‘(صحیح بخاری)
ترجمہ: ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرو۔
یعنی ہر شخص کو بندوں کے معاملات میں اللہ و رسول کی ہدایات اور قوانین پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور تمام نیکیوں کے کرنے میں نیتوں کی صفائی رکھنی چاہیے، ورنہ ہمارے دیگر نیک اعمال بھی آخرت میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ دیں گے۔
عبادات ہوں یا معاملات، اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق ہو یا بندوں کے ساتھ، دونوں معاملے میں ہمیں مخلص اور دیانت دار ہونا پڑے گا اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنے ظاہری حسن کے ساتھ باطنی حسن یعنی دل کی بھی صفائی رکھیں گے، کیوں کہ اللہ کے نزدیک ظاہری اور باطنی دونوں گناہوں سے پاکیزگی ضروری ہے اور سچی توبہ میں یہی چیز مطلوب ہوتی ہے،حضرت سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں :
بری خصلتوں کو اچھی خصلتوں سے بدلنے کا نام توبہ ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ مخلوق سے کم آمیزی ہو، حلال روزی کھائی جائے اور فضول گفتگو سے احتراز کیا جائے۔
حضرت شفیق بلخی فرماتے ہیں:اپنے نفس کو بہت ملامت کرنا، ہمیشہ گناہ پر نادم ہونا توبہ ہے۔
عمرو بن ابی معاذ توبۂ نصوح کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:سچی توبہ یہ ہے کہ گناہوں سے کنارہ کشی کے بعد دوبارہ گناہ کی جانب پلٹنا نہ پایا جائے، جیسا کہ دودھ تھن سے جدا ہونے کے بعد دوبارہ واپس نہیں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کی توفیق بخشے اور اس پر ہمیشہ قائم رکھے ۔(آمین)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں