Tauheed e Bari Tala


 توحید باری تعا لٰی
مولانا امام الدین سعیدی 

ہمارے ایمان وعقیدے کے بہت سے ارکان اوراصول  ہیں مگر سب کی بنیاد اور جڑ توحید ہے، اس لیے سب سے پہلے توحید کی حقیقت کا جاننا بے حد ضروری ہے ۔
  توحید کے یوں توبہت سے گو شے اور پہلو ہیں ،لیکن سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اللہ ایک ہے پاک اور بے عیب ہے ۔ اس کے لیے قرآن مقدس کی اس سورۂ مبارکہ کو پیش نظر رکھیے جس میں نہایت مختصراورواضح انداز میں ان امور کو بیان کیا گیا ہے ،یعنی ’’سورۂ اخلاص ‘‘جسے قرآن کا ایک تہائی حصہ بھی قراردیا گیا گیا ہے اور’’ سورۂ اساس‘‘ بھی،جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد ہے:
أُسِّسَتِ السَّموَاتُ السَّبْعُ والأَرْضُونَ السَّبْعُ عَلٰی قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَدٌ۔ (جمع الجوامع للسیوطی)
یعنی ساتوں زمین و آسمان کی بنیاد’’ قل ہواللّٰہ احد‘‘ پر رکھی گئی ہے ۔
اس مقدس سورہ سے بہتر خدا کی شان کا بیان کہیں اور نہیں ملتا۔اس کے اندر اُن صفات کاذکرموجودہے جو ذات باری تعالی کے لیے مطلوب ہیں۔
 قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ،اللّٰہُ الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ،وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ ،
قل ہواللّٰہ احد  :اے رسول! آپ فرمادیجئے کہ اللہ ایک ہے ۔
اللہ کی یہ پہلی صفت ہے کہ وہ ایک ہے، اکیلا ہے اور اس کا کو ئی شریک نہیں۔ نہ اس کی کو ئی مثل ہے اور نہ کوئی مثال، نہ اس کی ذات میں ،نہ صفات میں اور نہ افعال میں۔ وہ ہر خوبی میں یکتا ہے اورہر کمال میں یگانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے پر خود یہ پوری کائنات گواہی دے رہی ہے ۔رات او ر دن کا آناجانا ، چاندو سورج کا مقررہ وقت پہ نکلنا اور ڈوبنا ،ہوا کاچلنااور بارش کاہونا۔ گو یا کہ اس کائنات کا پورا نظام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اگر اس جہان کا خدا ایک کے بجائے کئی ایک ہو تے تو یہ نظام عالم قائم نہیں رہ پاتا،چنانچہ  قر آن کریم میں ارشاد ہے:
 لَوْ کَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَۃٌ إِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا۔
(سورہ انبیا، آیت:۲۲)
یعنی اگرزمین وآسمان میں اللہ کے سوا کئی معبود ہوتے توان میں فساد برپا ہوجاتا۔
 اس لیے کہ جتنے معبود ہو تے اتنی ہی مرضی ہو تی۔ ایک چاہتا کہ ابھی بارش ہو، دوسرا چاہتا کہ ابھی دھوپ نکلے۔ اس طرح تمام کائنات میں فساد برپا ہو جاتا اور پو رانظام درہم برہم ہوکر رہ جا تا ،جبکہ ابھی تک ایسا نہیں ہو ا ،بلکہ کائنات کاہر نظام ایک مقررہ اصول کے تحت چل رہا ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ پوری کائنات میں ایک ہی حکمران کا حکم نافذہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات ۔
اللّٰہ الصمد:اللہ بے نیاز ہے۔
 اللہ کی یہ دوسری صفت ہے کہ وہ بے نیازہے ۔ صمد کا معنی ہو تا ہے جس کی طرف حاجت پوری کرنے کے لیے قصد کیا جائے ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ سب کے سب اللہ کے محتاج ہیں اوروہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اُسے کسی کی ضرورت نہیں، کسی چیز کی حاجت نہیں ، نہ کسی معاون ومددگارکی اورنہ کسی مشیر کی، کیونکہ اُسے اگر کسی کی ضرورت ہو تو پھر اس کامحتاج ہو نا لازم آئے گااوریہ اللہ کے لیے محال ہے، قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاء ُ ۔(سورہ محمد،آیت :۳۸) یعنی اللہ بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔
  اس کی شان بے نیازی کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ نہ اس کو کسی کی عبادت کی ضرورت ہے اور نہ کسی کے حمد وثناکی ۔اگر ساری کائنات اس کی بارگا ہ میں سربہ سجود ہو جائے اور اس کی تسبیح وتہلیل اور تعریف وتوصیف میں مشغول ہو جائے تب بھی وہ کمال والاہے اور اگر کوئی اس کو نہ مانے ،یادنیامیں کوئی اس کا نام لینے والا نہ رہے، تب بھی وہ کمال والا ہے،اس کے سبب اس کی شان وعظمت میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۔
گر ہمہ مردم وملک خاک شوند بر درت 
دامن عزت ترا گردِ زوال کے رسد
ترجمہ:اے اللہ! اگر تمام انسان اور فرشتے تیری بارگاہ بے نیازی میں اپنے آپ کو فناکردیں پھر بھی تیرے دامن عزت پرکچھ ا ٓنچ نہیں آ سکتی۔
اس کی شا ن کبریا ئی ہر آن نئی شان کی مصداق ہے ۔ شان بے نیازی کا ایک نمو نہ یہ بھی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل وکرم سے اپنا محبوب بنا لیتا ہے اورجسے چا ہتا ہے اُسے اپنے سے دور کردیتا ہے، نہ وہ رنگ دیکھتا ہے، نہ نسل اور نہ ہی کوئی خطہ دیکھتا ہے ۔
لم یلد ولم یو لد:نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کوئی اس کا باپ۔  
اللہ کی یہ تیسری صفت ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ نہ اس کی کو ئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کا لڑکا ہے ۔اس میں جنس اور مشابہ کی نفی ہے، ظاہر ہے اس کا کوئی جنس نہیں کہ اس سے کو ئی اولاد کا تصور ہو ۔مزید جو اُس کا لڑکا ہوگا تو وہ بھی جنس کہلائے گا ، اس کی صفات وعادات میں شریک ہو گا اور اللہ کی صفات میں کسی کا شریک ہونا محال ہے ، اس لیے یہ عقیدہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ نہ اس کی کو ئی بیوی ہے، نہ لڑکا ہے اور نہ باپ،کیونکہ یہ سب حادث ہونے پر دلیل ہیں اور اللہ حادث نہیں بلکہ وہ قدیم ہے ۔
 لم یکن لہ کفوا احد: اس کا ہمسر کوئی نہیں۔
اللہ کی یہ چوتھی صفت ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جو ڑ کا کوئی نہیں۔ پوری کائنات میں کو ئی بھی شیٔ خواہ کتنی ہی عظمت والی ہو، اس کے برابر کی نہیںہے، نہ وجود حقیقی میں نہ قدرت میں ،نہ طاقت میں نہ حکومت میں اورنہ کمال میں:
’’ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْء ٌ۔‘‘(سورہ شوری، آیت:۱۱)
 یعنی اس کی طرح کوئی چیز نہیں ۔ اس کی ہمسری کرنے کے لیے اس کی طرح کی خو بی و کمال چاہیے اور جب کوئی اس کی بے پناہ قدرت کاملہ کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا تو پھر ہمسری کے دعوے کی کیا مجال :
اے زخیال ما بروں در تو خیال کے رسد 
باصفت تو عقل را  لافِ کمال کے رسد(امیرخسروؔ)
یعنی اے وہ ذات جو ہمارے وہم و خیال میں آنے والی  نہیں ہے تجھ تک ہماری رسائی کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ کمترعقل کی یہ مجال کہاں کہ وہ تیری صفات تک پہنچ سکے۔ 
گویااس کائنا ت کی کو ئی بھی شیٔ اس کی طرح نہیں جس سے اس کو تشبیہ دی جائے۔ وہ صورت اورشکل سے پاک ہے ، جسم و مکان سے پاک ہے، این وکیف سے بالاترہے، البتہ و ہ اپنے صفات او رمظاہر سے جا نا جاتا ہے۔ 
ایک مادی مثال کے ذریعے اس مسئلے کو سمجھا جاسکتا ہے، لیکن واضح رہے کہ وہ ہر مثال ا ور نظیر سے پاک ہے ،جیسے بجلی کیسی ہو تی ہے؟ کس شکل کی ہوتی ہے ؟اس کا علم کسی کو بھی نہیں، اس کی حقیقت کا ادراک خود بجلی بنانے والے کو بھی حاصل نہیں، بس بلب کے جلنے سے اور پنکھاچلنے سے معلوم ہوتاہے کہ بجلی ہے اور وہ جو رو ح اورمادہ سے پاک ہے، بلاشبہ اس ذات غیب الغیب کی حقیقت اس سے کہیں بالاتر ہے، وَرَائُ الوَرَاء ثُمَّ وَرَائُ الوَرَاء۔
جو لکھا سو خبط جو کہا سو جنوں 
تَعَالٰی شَانُہ عَمَّا یصفوں



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0