Zakat, Sadqa Aur Sakhawat


 زکاۃ،صدقہ اور سخاوت
مولانا مقصود احمد سعیدی

اللہ تعالی کی شان رحیمی اورکریمی کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔انسان گناہ پہ گناہ کیے جارہا ہے،سنن ونوافل تودور فرائض کو بھی صحیح طورسے ادانہیں کرپارہا ہے اور عذاب کا سزواربنتا جارہا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ کبھی زکاۃ کے بہانے ،کبھی صدقہ کے بہانے تو کبھی سخاوت کے بہانے اپنے بندوں کو خود سے قریب رکھنے کا راستہ دکھارہا ہے۔ 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَتَاہُ اللّٰہُ مَالاً فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہ مِثْلَ لَہ مَالَہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ شُجَاعاً اَقْرَعَ لَہ زَبِیْتَانِ یَطُوْفُہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ یَاخُذُ بِلَھْزِمَتَیْہِ یَعْنِیْ بِشِدْقَیْہِ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا مَالُکَ اَنَا کَنْزُکَ ثُمَّ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخُلُوْنَ بِمَا اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ ھُوَخَیْرٌ لَّھُمْ بلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیَطُوْفُوْنَ مَابَخِلُوْا بِہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔‘‘(البخاری،کتاب الزکاۃ)
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ نے مال دیا ہو، اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تووہ مال قیامت کے دن گنجا سانپ بنا دیا جائے گا،اس کی آنکھوں کے اوپر دوسیاہ نقطے ہوں گے، اس سانپ کو اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اس شخص کو اپنے جبڑوں سے پکڑکر کہے گا میں تیرا مال ہوں ،میں تیرا خزانہ ہوں، پھر انھوں نے یہ آیت تلاوت کی کہ: جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال عطا کیا ہے ،وہ اس میں بخل کرتے ہیںتو وہ اس کو بہتر گمان نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے بد تر ہے ۔
یعنی قیامت کے دن زکاۃ نہ دینے والوں پربڑا سخت اور بھیانک عذاب ہوگا۔زکاۃ نہ دینے والوں کے لیے یہ عبرت کی بات ہے کہ جس شخص کو سانپ اپنے جبڑوںمیں لے گا ، اس کی حالت کیا ہوگی۔
عَنْ اَبِی بَکَرِ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ خَبٌ وَّلاَبَخِیْلٌ وَّلَامَنَّانٌ۔(رواہ الترمذی )
ترجمہ :حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مکار اور بخیل اور صدقہ دے کر احسان دھرنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔
مکار اور بخیل اپنے بدعملی کے سبب جہنم میں تو جائے گا ہی، لیکن کسی کے ساتھ بھلائی کرکے ،اس پر احسان جتانے والا بھی جنت سے محروم ہو جائے گا محض اپنے دکھاوے کی وجہ سے ۔
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَدَّقَ بِعَذْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبِ طَیِِّبٍ وَلَایَقْبُلُ اللّٰہُ اِلاَّ الطَّیِِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہ ثُمَّ یُرَبِّھَا لِصَاحِبِھَاکَمَا یُرَبِّی اَحَدُکُمْ فِلْوَۃً حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ۔ (بخاری و مسلم)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور کی قیمت یااس کے وزن بھرکوئی شیٔ خیرات کرے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک کمائی ہی کا صدقہ قبول کرتا تو اللہ تعالی اس شخص کی کمائی سے کی جانے والی خیرات کو اپنے داہنے ہاتھ سے قبول فرماتاہے ،پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لیے پالتاہے جیسے کوئی تم میں سے کسی بچھڑے کو پالتااور پوستاہے ، یہاں تک کہ وہ خیرات یا اس کا ثواب پہاڑ کی مانند ہوجاتاہے ۔
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلسَّخِیُ قَرِیْبٌ مِنَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِنَ الْجَنَّۃِ قَرِیْبٌ مِنَ النَّاسِ بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ وَبَخِیْلٌ بَعِیْدٌ مِنَ اللّٰہِ بَعِیْدٌ مِنَ الْجَنَّۃِ بَعِیْدٌ مِنَ النَّاسِ قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ وَالْجَاھِلُ سَخِیٌ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ عَابِدٍ بَخِیْلٍ۔ (رواہ الترمذی )
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سخی یعنی فیاض بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہے،جنت سے قریب ہے ،لوگوں سے قریب ہے یعنی سب ہی اس کو پسند کرتے ہیں اور آگ سے دور ہے ، اور بخیل یعنی کنجوس کہ جو کچھ اس پر واجب ہے اس کو اپنی گرہ سے نہ جانے دے ۔وہ اللہ تعالی سے دور ہے ، جنت سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے یعنی لوگ اسے ناپسندکرتے ہیں اور آگ یعنی جہنم سے قریب ہے،بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو جاہل سخی،کنجوس عابد سے زیادہ پیارا ہے ۔
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم لَوْکاَنَ لِی مِثْلُ اُحَد ذَھْباً لَسَرَّنِی اَنْ لَا یَمُرُّ عَلٰی ثَلٰثَ لَیَالٍ وَعِنْدِیْ مِنْہُ شَئْیٌ اِلاَّشَئْیٌ اَرْصَدَہ لِدَیْنٍ ۔(رواہ البخاری )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑکے برابر سونا ہو تو میرے لیے خوشی کی بات یہ ہوگی کہ مجھ پر تین راتیں اس حال میں نہ گزریں کہ اس (سونے)میںسے کچھ میرے پاس موجود ہو، اس چیز کے سواجو ادائے دین کے لیے میں رکھ چھوڑوں۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی الْاَشْعَرِیْ قَالَ :قَالَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمعَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ قَالُوْا فَاِنْ لَمْ یَجِدْ قَالَ فَلَیَعْمَلْ بِیَدَیْہِ فَیَنْفَعُ نَفْسَہٗ وَیَتَصَدَّقُ قَالُوْا فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ اَوْلَمْ یَفْعَلْ قَالَ فَیُعِیْنُ ذَاالْحاَجَۃِ الْمَلْھُوْفِ قَالُوْا فَاِنْ لَّمْ یَفْعَلْہٗ قَالَ فَیَامُرُ بِالْخَیْرِقَالُوْافَاِنْ لَّم یَفْعَلْ قَالَ فَیَمْسُکُ عَنِ الشَّرِّ فَاِنَّہ لَہ صَدَقَۃٌ۔(بخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لحاظ سے ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگرکسی کے پاس صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو؟فرمایا :اس کو چاہیے کہ دونوں ہاتھوں سے محنت کرکے کمائے ،پھر اپنے آپ کو نفع بھی پہنچائے اور خیرات بھی کرے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا : اگر وہ اس محنت والے کام کی طاقت نہ رکھتاہو ،یا یوں عرض کیا کہ اگر وہ نہ کرسکے ؟فرمایا : تووہ جان سے یا مال سے یا کم از کم زبان سے حاجت مند پریشان حال کی مددکرے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:اگر یہ بھی نہ کرسکے ؟فرمایا تو وہ نیکی کی تلقین اورتبلیغ کا فریضہ انجام دے۔صحابہ کرام نے عرض کیا :اگر یہ بھی نہ کرسکے؟ فرمایا تو وہ خدا کے بندوں کوبرائی پہنچانے سے خود کو یا دوسروں کو باز رکھے ،بس یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔

 یعنی اس نیکی پراس کو وہ ثواب ملے گا جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر ملتاہے ۔


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0