الحاد اور اللہ کی شان
اللہ رب العزت کے اسما میں الحاد جائز نہیں
الحاد کا معنی اور اس کے اقسام:
الحاد کا معنی اور اس کے اقسام:
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں :الحاد کے معنی ہیں ’’حق سے تجاوز کرنا‘‘۔
الحاد کی دو قسمیں ہیں: ایک اللہ کے ساتھ شرک کرنا ،یہ ایمان کے منافی ہے۔ دوسری قسم اسباب کو شریک بنانا، یہ ایمان کو کمزور کرتا ہے اور ایما ن کی گرہ کو نہیں کھولتا۔ اللہ تعالی کے اسما میں الحاد کرنے کی بھی دو قسمیں ہیں :ایک یہ کہ اللہ تعالی کی ایسی صفت بیان کی جائے جس کے ساتھ اس کو موصوف کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالی کےصفات کی ایسی تاویل کی جائے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے۔ (المفردات، ج:۲ ،ص:۵۷۷،مکتبہ نزار مصطفی الباز، مکہ مکرمہ )
اللہ کے اسما ئے حسنی میں الحاد کے حوالے سے امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں :
محققین نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کے اسما میں الحاد تین قسم پر ہے :
(۱)اللہ تعالی کے اسما ئے مقدسہ طاہرہ کا غیر اللہ پر اطلاق کیا جائے، جیسا کہ کفار نے اپنے بتوں پر تصرف کے ساتھ اللہ کے ناموں کا اطلاق کیا، مثلا انہوں نے لفظ ’’اللہ‘‘ سے ’’اللات‘‘ بنا یا اور ’’العزیز‘‘ سے ’’عزی‘‘ بنایا اور’’ المنان‘‘ سے ’’المناۃ‘‘ بنایا اور مسیلمہ کذاب نے خود اپنا نام ’’الرحمن‘‘ رکھا ۔
(۲)اللہ کاا یسا نام رکھنا جو اس کے حق میں جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ عیسا ئی اللہ تعالی کو مسیح کا باپ کہتے ہیں اور کرامیہ اللہ تعالی پر جسم کاا طلاق کرتے ہیں۔ اسی طرح معتزلہ اپنی بحث کے دوران کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی نے ایسا کیا تو وہ جاہل ہو گا اور لائق مذمت ہوگا ۔ اس قسم کے الفاظ بے ادبی کے مظہر ہیں۔ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ ہر وہ لفظ جس کا معنی صحیح ہو اس کاا طلاق اللہ تعالی پر کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی خالق الاجسام ہے لیکن اس کو کیڑوں مکوڑوں اور بندروں کا خالق کہنا جائز نہیں ہے،بلکہ اس قسم کے الفاظ سے اللہ تعالی کی تنزیہہ واجب ہے۔
(۳) بندہ اپنے رب کاذکر ایسے لفظ سے کرے جس کا معنی وہ نہیں جانتا۔کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسے لفظ کا ذکر کرے جس کا معنی اللہ کی جناب کے لائق نہیں ہے ۔
اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ ایک لفظ کا اطلاق اللہ تعالی پر ثابت ہو تو کیاا س کے تمام مشتقات کاا طلاق اللہ تعالی پر جائز ہے؟تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ نہ اللہ تعالی کے حق میں جائز ہے، نہ انبیا علیہم السلام کےحق میں اور نہ ملائکہ کے حق میں؛ کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کے لیے ’’علم‘‘ کا لفظ آیا ہے ’’وعلم آدم الاسماء کلھا ‘‘علمک مالم تکن تعلم ،لیکن اللہ تعالی کو’’یامعلم!‘‘ کہنا جائز نہیں ہے، نیز اللہ تعالی کے لیے’’ یحب‘‘ کا لفظ آیا ہے ’’یحبھم ویحبونہ‘‘، لیکن اللہ تعالی کو ’’یا محب!‘‘ کہنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح انبیا علیہم السلام کا معاملہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے حق میںوارد ہے ’’وعصی آدم ربہ فغوی ‘‘ لیکن یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ آدم عاصی وغاوی تھے ۔اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے حق میں وارد ہے ’’یٰا بت استاجرہ ‘‘لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو اجیر (اجرت پر کام کرنے والے )کہنا جائز نہیں ہے۔ قاعدہ ہے کہ یہ الفاظ موہوم ہیں، اس لیے ان اکا انحصار ان ہی نصوص میں واجب ہے اور ان سے مشتق الفاظ کے اطلاق میں توسع میرے نزدیک ممنوع اور ناجائز ہے ۔(ایضا: ۴۱۷) علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی لکھتے ہیں : علامہ ابن العربی مالکی نے کہا ہے کہ صرف ان ہی اسما کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کی جائے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور حدیث کی ان پانچ کتابوں میں ہے ،صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،سنن الترمذی ،سنن ابو داؤد اور سنن نسائی ،یہ وہ کتابیں ہیں جن پر اسلام کے احکام کا مدار ہے اور ان کتابوں میں’’ الموطا‘‘ بھی داخل ہے جو تمام تصانیفِ حدیث کی اصل ہے۔ ان کے علاوہ باقی اسماکو چھوڑ دو۔ (الجامع لاحکام القرآن ،ج: ۷،۲۹۲،بیروت ) علامہ ابو سلیمان خطابی نے کہا ہے کہ آیت میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے نام لینے میں غلطی کرنا زیغ اور الحاد ہے۔ (زادالمیسر ، ج:۳،ص:۲۹۳)
گویا اللہ رب العزت کے اسما میں الحاد جائز نہیں ہے۔ ہمیں اللہ رب العزت کوا نہیں اسماسے پکار نا ہے جوقرآن مقدس اور احادیث کی مستند کتابوں میں وارد ہیں۔ اس کے علاوہ غلط ناموں سے پکارنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ ماسبق کی باتوں سے معلوم ہوا ۔ آج اگر معاشرے پر ایک طائرانہ نظرڈالی جائے تو اکثریت اس بات سے غافل ہے کہ اللہ رب العزت کے اسما کون کون سے ہیں اوراس کا مطلب کیا ہے ؟اور وہ ان غلط ناموں سے بے خبر ہیں ۔بسا اوقات انسان ان غلط ناموں کا استعمال اپنی زبان سے کرلیتا ہے جس سے وہ سزا کا مستحق بن جا تا ہے اور اسے پتہ تک نہیں چلتا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس کو غلط ناموں سے پکارنےسے بچنا چاہیے اور حتی الامکان کو شش کرنی چاہیے کہ الحاد سے بچا جائے اور اسمائے حسنی صحیحہ سے اسے پکارا جائے ۔اللہ رب العزت ہمیں الحاد اور اس کی خرابیوں سے محفوظ رکھے !!!
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں