Aur Ab Majma al Sulook Ki Saughat

اور اب مجمع السلوک کی سوغات
خانقاہ عارفیہ الہ آباد کی طرف سے تحقیق وترجمہ کے بعد منظرِ عام پر

 خانقاہ عارفیہ کے روحانی فیوض وبرکات سے جہاں ملکی سطح پر ہر، اعلی واوسط درجۂ علم و ذہن وحال کے لوگ محظوظ ہو رہے ہیں، یعنی جہاں عوامِ مسلمین، اصلاحِ حال پا رہے ہیں، علماے مسلمین تربیتِ نفس کر رہے ہیں، نیز دیگر برادرانِ وطن بڑی تعداد میں ہدایتِ حق حاصل کر رہے ہیں وغیرہ۔
 وہیں خانقاہ کی علمی خدمات، زبردست قابلِ تحسین بلکہ لائقِ تقلید ہیں۔ یہ وقتاً فوقتاً علمی ودینی پروگراموں اور اُن میں ہونے والے علمی و فقہی توسیعی خطابوں، فکری وتحریکی لیکچروں، نیز ورک شاپوں وغیرہ پر مشتمل ہونے کے ساتھ دو بڑی اور مستقل شکلوں میں ہے۔
تعلیمی: جس کے لیے باضابطہ جامعہ عارفیہ قائم ہے جس میں سیکڑوں طلبۂ علومِ دین، شب وروز تحصیلِ علومِ دین میں مصروف ہیں، جن کی خاص بات یہ ہے کہ باعمل عالم بننے کی راہ پر گام زن ہیں۔ 
اور قلمی: جس کے لیے مستقل شاہ صفی اکیڈمی قائم و سرگرم ہے۔
 شاہ صفی کیڈمی کے زیرِ اہتمام، الاحسان کے نام سے سال نامے کی ترتیب واشاعت ملک بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ تصوف، مجموعی و مرکزی موضوع ہے، سال نامے پر خالص علمی رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ دوسری اہم تحریری خدمت خضرِ راہ کے نام پیش کی جاتی ہے۔ یہ بسہل زبان وبیان، اپنے ہدف میں تیر بہ ہدف اصلاحی ماہ نامہ ہے۔
 تحریری شکل میں دیگر چھوٹی بڑی کتابوں/تحریروں کی پیش کش کے درمیان عربی متن رکھنے والے رسالہ مکیہ از علامہ قطب الدین دمشقی (780ھ) کی تحقیق واشاعت اپنے آپ میں ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ یہ رسالہ، علمِ تصوف میں متنِ گراں قدر ہے،یعنی کہ مقبولِ طبقۂ اہلِ سنت و معمولِ حلقۂ اہلِ تصوف ہے۔
 اکیڈمی /خانقاہ کی تازہ خالص علمی خدمت جسے برسوں سراہا جائے گا، مجمع السلوک از علامہ شیخ سعد خیرآبادی، مرید شیخ شاہ مینا لکھنوی کی تحقیق وترجمہ و اشاعت ہے۔ یہ رسالۂ مکیہ کی فارسی زبان میں جامع شرح ہونے کے ساتھ معارف کا سمندر ہے۔
 گذشتہ پانچ سالوں سے اس پر تحقیقی، تحشیاتی، اشاراتی کام چل رہا تھا اور اب مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی استاذ جامعہ عارفیہ کے اُردو ترجمے اور دیگر جواں علم و جواں عمر علما و مدرسینِ جامعہ کی مشترکہ علمی معاونت کے ساتھ پریس کے حوالے کی جاچکی ہے۔ یہ نہایت عظیم و تاریخی کارنامہ ہے، کہ ایک قیمتی مخطوطے کی بازیافت کی گئی اور پھر اُسے علمی طور پر مفیدِ خاص وعام بنایا گیا۔
 دراصل، اِس سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں، وہ حضرت شیخ ابو سعید احسان اللہ صفوی زیبِ سجادہ خانقاہ عارفیہ کی ذات ہے۔ حضرتِ شیخ کی ذات، سورج کی مانند ہے، جس کے اردگرد، خانقاہ کے سارے دینی وعلمی کام اور کارنامے کردش کرتے رہتے ہیں۔
 جو علما، خانقاہ میں مذکورہ علمی کاموں کو انجام دے رہے ہیں، وہ اُن علما کی نفسِ ذات کی طرف نظر کرتے ہوئے غیر متوقع ہے، جب کہ ذاتِ شیخ کی علوِ عظمتِ تابانہ کی سمت دیکھتے ہوئے ہیچ ہے، کیوں کہ علوِ ذاتِ شیخ کی عظمتوں کو براہِ راست و بلا اعتبارِ آخر، آنکنا، راقمِ آثم کی سکت نہیں۔ جب کہ اب تک کے خانقاہ کے کارناموں یا ذاتی حساس تجربوں سے صرف یہی اندازہ ہوتا ہے کہ خیرِ فیاضانہ کی برآمدگی کی کثرت ووسعت کا اندازہ لگانا متعذر ہے۔ حفظہ اللہ و اَدام علینا ظلہ وفیضہ۔
 از:محمد ناصر مصباحی 
معہدِ اسلامی، حضرت پور، توپ خانہ، رامپور

2 Comments

اپنی رائے پیش کریں