ہومPurificationFatima Ki Tasbeeh Fatima Ki Tasbeeh Alehsan Media فروری 08, 2017 فہرست صفحہ اول حمد و مدح عرفانی مجلس (اداریہ)جس کی ضرورت تھی سورۃ فاتحۃ جنت میں کون نہیں جائے گا (ضیائے حدیث) طہارت کے فرائض (شرعی مسائل) شیخ ابوالحسن خرقانی کی تعلیمات (شہ پارہؑ اسلاف) اسرار التوحید (سلسلہ-1) خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہ (شخصیت) صراط مستقیم نیت سے ثواب حاصل کریں دعوت اور عام زندگی نفس کی پاکیزگی حجۃ الوداع انسانیت کی فلاح بیعت کیا ہے؟ تعلیم کا اصل مقصد امام غزالی : سوانحی خاکہ (خاص گوشہ) فاطمہ کی تسبیح (گوشہؑ خواتین) تصویر کائنات بچوں کی تربیت خواتین کی تعلیم کے اثرات حمد باری تعالیٰ اچھے بچے (بچوں کی دنیا) شاہ احسان اللہ محمدی صفوی (بزم طلبہ) ماں باپ بڑی نعمت ہیں سیاست اور امارت جز وقتی کورسیز (کیرئیر گائیڈس) کیا آپ جانتے ہیں؟ نغمات الاسرار فی مقامات الابرار (تبصرہ و تعارف) فاطمہ کی تسبیح نوشین حسنام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں جو آپ سے بہت محبت اور لگاؤ رکھتی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہردکھ سکھ میں رحمت دوعالم علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ رہیں،خواہ اعلان نبوت سے پہلے کا معاملہ ہو یااعلان نبوت کے بعد کا۔جب کبھی حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی صدمہ پہنچتا ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بڑی محبت کے ساتھ آپ کی دلجوئی کرتیں اور ہمت وحوصلہ سے کام لینے کا مشورہ دیتیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہمدردی اور محبت کا ذکر ان کی وفات کے بعد بھی اکثر کیا کرتے تھے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہااپنی ماں کی طرح نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہامحبت اور لگاؤ رکھتی تھیں۔دشمنوں کی تکالیف کے سبب جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبیدہ خاطر ہوتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابھی آب دیدہ ہوجاتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے لخت جگر سے اتنی ہی محبت فرماتے تھے اور اپنی پیاری بیٹی کو تکلیف میں دیکھنا پسند نہیں فرماتے تھے،لیکن جب تقویٰ وطہارت کی بات آتی اورعبادت وریاضت کا معاملہ ہوتا توسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شفقت کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو ہمیشہ یادالہی اورذکر الہی میں مصروف رہنے کی تلقین فرماتے اور سلیقہ شعاروفرمانبرداربیٹی بھی اپنے شفیق ترین باپ کی بات ماننے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتیں ۔ اس طرح ایک طرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے اباحضور سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فخر کرتیں اوردوسری طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مثالی لخت جگر پرنازفرماتے۔ایسا کیوںنہ ہوکہ جس طرح دونوںعالم کے سردارحضورصلی اللہ علیہ وسلم گھریلوکام کاج بذات خود کیا کرتے،بعینہ شہنشاہ کونین کی پیاری بیٹی بھی اپنا گھریلو کام بذات خود انجام دیتی تھیں،یہاں تک کہ چکی پیسنے میں ان کے ہاتھ بھی چھل جایاکرتے تھے،آئیے اس کا ایک نمونہ دیکھتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ کچھ باندیاں لائی گئیں،( ادھرچکی پیسنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے) اس لیے میں نے ان سے کہاکہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گھر کے کام کاج کے لیے ایک باندی طلب کر لیجئے ۔ چنانچہ وہ تین مرتبہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ بعد نماز عشاجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کی آمد کا تذکرہ کیاـ، آپ اسی وقت ہمارے یہاں تشریف لائے۔ بعد اجازت مکان میں داخل ہوئے ۔ ہم دونوں بستر پر لیٹ چکے تھے۔ میں بستر سے اٹھنا چاہا مگر اس شب میں سردی چونکہ شدید تھی، اس لیے اٹھنے سے روک دیا اور فرمایاکہ جیسے لیٹے ہو ویسے ہی لیٹے رہو۔ پھر اپنی صاحبزادی سے فرمایا کہ آج ہمارے یہاں کس ضرورت سے جاناہوا تھا؟ عرض کیا:یا رسول اللہ! چکی پیسنے سے میرے دونوں ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں،گھریلوکام کاج میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، تو میں اس لیے حاضر ہوئی تھی کہ کوئی باندی عطا فرمادی جائے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا اس سے بہتر چیز نہ بتادوں؟ عرض کیا:ہاں،ارشاد فرمائیے! اس پرحبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بستر پر لیٹو تو چونتیس(۳۴) بار اللہ اکبر اور تنتیس(۳۳) بارسبحان اللہ اور تنتیس(۳۳)بار الحمدللہ پڑھ لیا کرو،جو چیز تم نے طلب کی تھی اس سے یہ بہتر ہے۔ مسلم خواتین خصوصیت کے ساتھ اس واقعہ پر غور کریں کہ ان کی دنیوی اوردینی زندگی دونوں کے لیے اس میں کتنی بہترین ہدایت موجود ہیں،جیسے: ۱۔شوہر،بیوی کو چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے سے بے لوث محبت کرے۔ہر کوئی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا بہترین ساتھی بنے۔ایک دوسرے کی عزت واحترام کا خیال رکھے اور کوئی ایسی بات نہ پیدا ہونے دے جو ایک دوسرے پر گراں گذرے۔ ۲۔اولاد اپنے والدین سے محبت کرے اور والدین بھی اپنی اولاد سے پیارکریں اور ہر کوئی ایک دوسرے کے پسندوناپسند اور بھلائی کا خیال رکھے۔اگر والدین کوئی بات کرنے کو کہیں تو نرمی اورمشفقانہ رویہ اختیار کریں ۔اسی طرح اولاد پر ضروری ہے کہ وہ والدین کی بات کو غور سے سنیں اور کوئی ایسی چیز کی طلب یا اسے پانے کے لیے ضد نہ کرے جو والدین کے لیے ناگوار ہو۔ ۳۔ شوہر کی مالی حالت اگر خادمہ رکھنے کی اجازت نہ دیتی ہو تو بیوی کا فرض ہے کہ گھر کا کام خود انجام دے۔ شوہر سے بیجا مطالبے نہ کیے جائیں جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمل کرکے بتایا کہ سب کام اپنے ہاتھ سے انجام دیے۔یہاں تک کہ چکی بھی پیسی ۔ ۴۔گھر کے کام کرنے سے تکلیف ہوتی ہویہاں تک کہ ہاتھوں میں چھالے پڑ جانے کی نوبت بھی آجائے تو عالی ظرف اورنیک بیبیاں زبان پر حرفِ شکایت بھی نہیں لاتیں،چہ جائیکہ روٹھ کر کام کاج چھوڑ دیں،مائیکے چلی جائیں اور اپنے شوہر کو اپنی نازیباحرکتوں سے تکلیف پہنچائیں، بلکہ ایسے وقت میں صبر و سکون سے کام لیناچاہیے جیسے کہ سردار عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی صاحبزادی نے اس کا عملی نمونہ پیش کر کے دکھا دیا۔ ۵۔شوہر کا بھی فرض ہے کہ بیوی کی آسائش و راحت کا خیال رکھے اور اس کی تکالیف دور کرنے کے لیے،ہر ممکن کوشش کرے اور مناسب تدابیر اختیار کرتا رہے جیسا کہ شیرِ خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے بتایا اور باندیوں کے آنے کی اطلاع پا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مشورہ دیا کہ حاضربارگاہ ہو کر باندی کے لیے درخواست پیش کریں تاکہ تکالیف سے نجات ملے۔ 0 تبصرے اپنی رائے پیش کریں google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0