میاں بیوی :ایک دوسرے کی ضرورت ہیں
فاطمہ ذیشان
اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز کو جوڑے کی صورت میں بنایا ہے، اسی لیے ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر مکمل ہوتی ہے۔ اس جوڑے کے اصول کو قرآن کی زبانی ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۴۹ (ذاریات)
یعنی ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے تاکہ تم دھیان کرو۔
دنیا کی تمام چیزیں جوڑے جوڑے کی شکل میں بنائی گئی ہیں۔ نباتات میں نر اور مادہ، حیوانات میں مذکر اور مونث، انسان میں مرد اور عورت۔ زوجین کا یہ اصول پوری کائنات کے لیے ہے اور یہی اصول انسانوں کے اندر بھی مرد اور عورت کی صورت میں قائم کیا گیا ہے۔
زوجین کے اسی فطری اصول کا نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنا فریضہ ادا کرتے ہیں جو فطرت کے نظام کے تحت ان سے مطلوب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مکمل وجود بنتے ہیں اور دونوں جب ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں تو نامکمل وجود بن کر رہ جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا قرآنی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے اس دنیا کی ہر چیز کو جوڑے، جوڑے کی صورت میں پیدا کیا ہے اور اس میں انسان کا جوڑا بھی شامل ہے۔
یعنی مرداورعورت دونوں ایک کامل وجود کا نصف حصہ ہیں اور وہ دونوں ایسی انسانی شخصیت ہیں جن کا آدھا حصہ عورت ہے اور آدھا حصہ مرد ۔ دونوں کو مل کرمشترک عمل کے ذریعے اپنا فریضۂ حیات ادا کرنا ہے،کیوںکہ دونوںایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔اسی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون و قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد خدا وندی ہے :وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْا۲۱ (روم)
یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمھیں میں سے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تمھیں سکون مل سکے۔
اگر مرد و عورت کا رشتہ صحیح طور و طریقے پر قائم ہو، اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی اہمیت کو جانیں اور احترام کریں تو شادی شدہ زندگی اختیار کرنے کے بعد ہر گھر ایک ادارہ بن جائے، پھر یہ ادارہ عورت اور مرد دونوں کے لیے ایک ایسا مرکزحیات ہوگا جو دونوں فریق کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو اور دونوں کو اس قابل بنائے کہ وہ زندگی کے سفر میں کبھی اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں۔
عورت اور مرد گویا کہ ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ الگ بھی ہیں اور اپنی مشترک کارکردگی کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار مختلف اسباب سے ایک دوسرے کے درمیان شکایت اور اختلاف کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو طرفین کو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ احساس ستاتا ہے کہ میں نے رفیق زندگی کے انتخاب میں غلطی کی، مگرحقیقت یہ ہے کہ انتخاب میں غلطی نہیں ہوتی بلکہ سوچ میں غلطی ہوتی ہے۔ فریقین کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس بھری دنیا میں نہ کوئی معیاری شوہر ہے اورنہ کوئی معیاری بیوی، ایسی حالت میں دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی بری باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں اور اچھی باتوں پر توجہ دیں۔
اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہنا سیکھیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فریا ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کوئی خصلت اس کو ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری خصلت اس کی پسند کے مطابق ہوگی۔
عورت مرکے بالمقابل زیادہ نازک ہوتی ہے اوریہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے، اسی لیے عورتوں کے ساتھ ان کی فطرت کے مطابق پیش آنا چاہیے۔ عورتوں سے معاملہ کرتے وقت ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عورتیں فطری طور پر جذباتی ہوتی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ ہمیشہ نرم برتاؤ کرنا چاہیے۔ اگر ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے تو ان کا دل اس طرح ٹوٹ جائے گا جس طرح پسلی سیدھا کرنے سے ٹوٹ جائے گی ۔
اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ اپنے شریک حیات کا خیال رکھے، کیونکہ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ آدمی کے لیے بہتر جمع کرنے والا مال کیا ہے ، نیک عورت کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو اس کو خوش کر دے اور جب اس کو حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور جب وہ غائب ہو تو اپنے نفس اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے۔
اگر کوئی عورت اس حدیث کے مطابق عمل کرے تو اس کی شادی شدہ زندگی بہت بہتر گذرے گی۔ لیکن کبھی کبھی شوہر اور بیوی کے درمیان معمولی باتوں کے سبب بھی ناچاقی ہو جاتی ہے اور کسی معاملہ میں ایک کی رائے دوسرے کی رائے سے مختلف ہو جاتی ہے ایک کچھ چاہتا ہے تو دوسرا کچھ اور ،دونوں ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے اندر ضد پیدا ہو جاتی ہے، دونوں میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میری بات چلے، اس وقت دونوں کو یہی لگتا ہے کہ میں صحیح ہوں اوروہ غلط، ایسے مواقع پر اپنی اپنی ضد کو چھوڑ کر یہ سوچیں کہ واقعی میں صحیح ہوں یا غلط، کیونکہ ایسا سوچنے سے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا ،بالخصوص عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی ضد چھوڑ کر اپنے شوہر کی باتوں کا خیال کرے، کیوںکہ ایسا کرنے سے وہ اپنے شوہر کے دل میں اپنے لیے زیادہ محبت پیدا کرے گی۔
جب یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ عورت و مرد ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں اور زندگی کا سفر دونوں کے ساتھ چلنے سے ہی پورا ہو سکتا ہے تو پھر اُن میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے دوسرے آدھے وجود کو سمجھنے ، اسے خوش کرنے اور اس کے ساتھ مل کر مکمل زندگی گذارنے کی کوشش کریں۔
شوہر اور بیوی دونوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جب ان کا شریک سفر ان کا ہم سفر بھی ہو اور خوش بھی ہو، تنہا سفریا ناخوشی کے ساتھ سفردونوں ہی کے لیے پر خطر بھی ہے ،بے کیف بھی ہے اور بے مزہ بھی۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں