مومنانہ صفات



مولانا امام الدین سعیدی

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
’’ اِنَّمَا الْمُؤ مِنُونَُ الَّذِیْنَ اِذَاْ ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَاْ تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰ یَاتُہُ زَاْدَتْہُمْ اِیْمَانَا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰو ۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُوْمِنُوْنَ حَقاًّ لَّہُمْ دَرَجَاْتٌ عِنْدَ رَبّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌوَّرِزْقٌ کَرِیْم۔‘‘ (انفال)
ترجمہ: مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل خوف سے کانپ جا تے ہیں اور جب اُن پر آیتوں کی تلاوت ہو تی ہیں تو اُن کے ایمان میں اضا فہ ہو تا ہے اور وہ صرف اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں، نماز کی پابندی کرتے ہیں جو بھی ہم نے انھیں عطا کیا ہے وہ اُسے میری راہ میں خرچ کرتے ہیں در حقیقت یہی لوگ مومن ہیں ان کے لیے رب کی بارگاہ میں درجے ہیں مغفرت اور پاکیزہ رزق کا انعام ہے ۔
 مذکورہ آیتوں میں اللہ رب العزت نے ایک مومن کامل کی خوبیوں اور صفتوں کابیان کیاہے جن اوصاف سے متصف ہونے کے بعد ہی  اصل ایمان کا حصول ہو تا ہے جو اِس پیمانے سے باہر ہو گا وہ حقیقت میں اصل ایمان سے نا آشنا ہے، مجموعی طور سے اِن آیتوں میں پانچ علامتیں بیا ن کی گئی ہیں جو حقیقی مومن کے لیے ضروری ہیں ۔
خوف:
یہ پہلی علامت ہے جسے اہل ایمان کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے خوف درحقیقت یہی ہے کہ بندہ ہر لمحہ اپنے رب کو موجود جانے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے عقاب و عذاب سے ڈرتا رہے اوراس کا احساس اس کیفیت کے مطابق ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی شان قہاری اور شان جباری کاڈر ہر برے عمل سے باز رکھے،کیونکہ اللہ کاخوف ہی ایک مومن کو اطاعت شعار اور فرماں بردار بناتا ہے۔ نافرمانی یا بے عملی اسی لیے پیدا ہو تی ہے کہ قلب خشیت الٰہی سے خالی ہو تا ہے ۔
 ارباب حقیقت فرماتے ہیں کہ خوف دو قسم کا ہو تا ہے:
 ٭ایک عقاب کا خوف   
٭دوسرا جلال کا خوف
 سزا وعقاب کے خوف کا تعلق نافرمانوں اور گنہ گاروں سے ہے۔
 عظمت وجلال اور شان بے نیازی کے خوف کا تعلق نیک بندوں سے ہے ، چاہے مقرب فرشتہ ہو یا نبی مرسل، سب اللہ کی کبریائی اور جلال وجبروت سے لرزہ براندام رہتے ہیں ۔
 شوق واخلاص:
یہ دوسری صفت ہے جس کو اللہ رب العزت نے یو ں بیان فرمایا ہے کہ جب اُن پر ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو اُن کے سننے سے اُن کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
یہاں ایمان سے مراد تصدیق وایقان ہے، مطلب یہ ہے کہ اُن کے یقین اور تصدیق سے کمی اور ضعف ختم ہوجاتا ہے ،اس میں کمال پیدا ہو نے لگتا ہے اورمضبو طی واستحکام پیدا ہو جاتا ہے جس سے اخلاص اور شوق کا جذبہ جنم لیتا ہے اور ایمان کے مقامات اور مدارج طے ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ایمان کے مراتب اور درجات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ اَلاِْیمْاَنُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃ اَعْلاَہَا شَہَادَۃُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَدْنَاہَااِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِِ  ۔‘‘(متفق علیہ)
یعنی ایمان کی ستر سے زائدشاخیں ہیں جن میں سب سے اونچی شاخ اس با ت کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی سب سے کمتر شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے،نیز حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔
یقین اورتصدیق میں اضافے کی یوں تو کئی صورتیں ہیں، ان میںایک صورت جس کو امام واحدی نے بیان کیا ہے،یہ ہے کہ جس کے پاس جس قدر دلائل اور شواہد کی کثرت ہوگی اس کا یقین اسی قدر مضبوط اور قوی ہوگا،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا:’’ لَوْوُزِنَ اِیْمَانُ اَبِی بَکْرِِ بِاِیْمَانِ اَہْلِ الْاَرْضِ لَرَجَحَ۔‘‘(تفسیر کبیر)
  یعنی اگر ابو بکر کے ایمان کو سارے اہل ایمان کے مقابلے تولا جائے تو ابو بکر کا ایمان بھاری پڑ جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ تصدیق اوریقین کے جس مقام پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں وہا ں کو ئی نہیں ۔
توکل:
یہ تیسری علامت ہے، اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کردینا ،یہ ایمان و یقین کے اس مقام پر فا ئز ہو ناہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں خدا کے علاوہ کسی پر اعتماد نہ کرے، اسی کی کارسازی پر بھروسہ رکھے اور ہر کام بنا نے والا اسی کو جا نے ۔
 واضح رہے کہ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ ظاہری اسباب کا استعمال اور کسب کو چھوڑ دے ،بلکہ اپنی کو شش اور اسباب کو بروئے کار لاتے ہو ئے یہ کامل اعتماد بھی رکھے کہ کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ اپنی کارسازی کسی نہ کسی انداز سے ظاہر کرتا ہے ، مولائے روم قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’ کسب کن پس تکیہ برجبار کن۔‘‘
 یعنی پہلے محنت کر پھر اس کے بعد رب پر بھروسہ رکھ ۔
اسی طرف قرآن میں بھی اشارہ کیاگیاہے:
’’  فَاِذَا عَزَمْتَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہ۔‘‘
ترجمہ: جب کسی کام کا پختہ ارادہ کرلوتو اس کے بعد اللہ پر توکل اوربھروسہ کرو ۔
 حاصل یہ کہ بندہ کو شش میں لگا رہے اور نتیجہ و انجام کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ پرتوکل اوربھروسہ کرے۔
 نماز: یہ چو تھی صفت ہے ،اقامت نمازکا مطلب  ہے کہ جملہ شرائط اور ظاہری و باطنی آداب کی رعایت کرتے ہوئے نماز ادا کرنا اور اُس میں ہمیشگی ہو۔ بلاشبہ نماز افضل ترین عبادت ہے جو ایک بندۂ مومن کی معراج ہے مگر یہ تبھی حاصل ہوگی جب اُس کی روح اس میں شامل ہو اور اُس کی روح احسان ہے ،یعنی خلوص جس کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:
 ’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاک ۔‘‘
یعنی اللہ کی عبادت ایسے کر وگو یا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو تو کم سے کم یہ خیال جما لو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے ۔
 نماز کی لذت بھی اسی وقت ملتی ہے جب بندہ اِس تصور کے ساتھ نماز میں کھڑاہو کہ میں اللہ کی بارگاہ خاص میں آیا ہوں اور جب سجدے میں پیشانی رکھے تو یہ محسوس کرے کہ میں نے صرف اپنی پیشانی نہیں جھکائی ہے ،بلکہ اپنے آپ کواللہ رب العزت کے قرب خاص میں سونپ دیا ہے، جیسا کہ  صحیح مسلم میں مرفوعاًروایت ہے:أقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہٖ وَہُوَ سَاجِدٌ۔ (تفسیر آلوسی، جلد۲۳،ص:۵۴)
حالت سجدہ میں بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
 انفاق:
پانچویں صفت انفاق بتائی گئی ہے، اس کو عام طور سے زکاۃ او رصدقات پر محمول کیا جا تاہے ،مراد یہ ہے کہ جہاں بھی دین کی اشاعت و تبلیغ کے لیے ضرورت پڑجائے تو وہ اپنا سرمایہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے ہیںاوراللہ کی دی ہو ئی دولت میں ان کا نظریہ یہ ہو تا ہے کہ جس طرح اس میں ان کا حق ہے اسی طرح دوسروں کے بھی حقوق ہیں، یعنی غربا ومساکین اور حاجت مندوں کا۔
انفاق کا ایک مطلب یہ بھی ہو تا ہے کہ جس کے پاس جو بھی نعمت اور دولت ہو، اُسے راہ مولی میں لگائے، چاہے سرمایہ ہو یا علم و فن کی نعمت ہو، اولاد ہو یاصحت وتوانائی، سب کو اللہ کی راہ میں استعما ل کرے ۔
 اِن اوصاف میں تین کا تعلق انسان کے باطن سے ہے جو نظر نہیں آتا،جیسے خوف وشوق اوراخلاص وتوکل،یہ سب باطنی کیفیتیں ہیں اور دو کا تعلق ظاہر سے ہے ،یعنی نماز اورانفاق ۔
 مجموعی طورپر یہ کچھ احوال ہیں اورکچھ اعما ل ، ان کو اپنے وجود میں راسخ کرلینے سے اصل ایمان کی لذت ملتی ہے ، حقیقت ایمان سے آشنائی ہوتی ہے اور جسے اصل ایمان اورحقیقت ایمان کا حصول ہوتا ہے تو اس کے لیے کچھ خاص انعامات ہوتے ہیں جو ہر کسی کے حصے میں نہیں ،جیسا کہ ان پانچ صفتوں کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا :
’’لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ ربِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کرَِیْم۔‘‘
 یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ قربت میں اُ ن کے لیے مخصوص درجات ہیں، وہ کیسے ہیں اورکیا ہیں؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ’مغفرت ‘سے مراد عیوب پر پردہ ڈالنا ہے،لیکن عارفین کے نزدیک اس کامطلب اُن حجابات کا ختم کرنا ہے جو غیراللہ میں مشغول ہو نے کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ’رزق کریم‘ سے مراد عام مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور اہل عرفان کے نزدیک وہ انوار وتجلیات مراد ہیں جو اللہ کی محبت او رمعرفت میں غرق ہونے کی وجہ سے حاصل ہو تے ہیں۔
 مولی تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو بھی اپنے محبوبو ں کے صدقے ان اوصاف کا حامل بنادے اور حقیقت ایمان کی چاشنی عطا کردے۔( آمین)



0 Comments

اپنی رائے پیش کریں