اسلام کا تعلق ظاہری و بدنی اعمال سے ہے، ایمان کا تعلق قلبی تصدیق سے، احسان جس کو ہم آج کی اصطلاح میں تصوف بھی کہتے ہیں، ان دونوں یعنی اسلام و ایمان کے کمال کانام ہے-
اسلام وایمان کی خوب صورتی اور اس کا حسن احسان ہے - حسن اور احسان کا مادہ بھی ایک ہے - اسلامیات یعنی ظاہری اعمال وافعال دوسرے الفاظ میں شرعی قوانین سے تعلق رکھنے والے اور ان کی حفاظت میں سرگرداں رہنے والوں کو فقہاے اسلام کہتے ہیں اور قلبی افعال یعنی ایمانیات سے متعلق مسائل سے بحث کرنے والوں کو متکلمین وائمہ عقائد کہتے ہیں اور ان دونوں کی حفاظت وپیروی کرتے ہوئے بغض و حسد ،کینہ و عداوت ، غیبت و چغل خوری سے بچتے ہوئے حسن خلق کامظاہرہ کرکے اسلام وایمان میں حسن پید ا کرنے والوں کو صوفیہ کہتے ہیں-
چوں کہ احسان نام ہے اسلام و ایمان کے غایت کمال کا-اس لیے اگر کوئی مسلم اور مومن نہ ہو تو وہ صوفی ہوہی نہیں سکتا بلکہ مومن کا متقی ہونا احسان تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے - دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ فقیہ نام ہے محافظ قوانین اسلامی کا، وہ ظاہرکا نگراںاور عاقل ناقل ہوتا ہے اور متکلم وہ ہے جو افعال قلبیہ سے بحث کرتا ہے یعنی وہ عاقل باحث ہوتاہے اور رہا صوفی تو وہ عاقل وباحث ہونے کے ساتھ شاہد بھی ہوتا ہے -فقیہ نقل سے نتیجہ اخذ کرتا ہے، متکلم بحث کے بعد نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے اور صوفی مشاہدہ کے بعد کلام کرتا ہے - (یہاں حقیقی صوفی کی گفتگو چل رہی ہے ) یہی وجہ ہے کہ فقیہ کا درجہ عام اہل علم سے اعلیٰ ہے اور متکلم کا مرتبہ فقیہ سے بڑھ کر ہے جب کہ صوفی ان دونوں سے افضل و اعلیٰ ہوتاہے بلکہ اسلامی علوم وفنون کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا مثلاً محدث، فقیہ، متکلم، مفسر وغیرہم کوئی بھی صوفی کے ہم سروبرابرنہیں ہوسکتا-
اس کے باوجود اہل علم کو معلوم ہے کہ علماے ناقدین نے صوفیہ پر خوب نقد کیا ہے- نقد کوئی عیب نہیں ہے -نقد کا معنی غالباً کریدنا ہوتاہے- اگر کوئی کرید کرے اور مقصد درست ہوتو ایسا نقد باعث اجرو ثواب ہے ، مثلاً انسان زمین کو کریدتا ہے تاکہ زمین کے بطن سے صاف وشفاف پانی کا چشمہ دریافت کرے - مرغی زمین پر پڑے ہوئے کچڑوں اور گندگی کو کریدتی ہے تاکہ اس سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خوراک حاصل کرے-
کوئی نقدکرے اورمقصد ہو کہ کسی کو ذلیل وخوار کیا جائے تو ایسا ناقد نقصان اور خسارہ میں ہے، ہاں مگر کسی کی نیت کا علم دوسرے کو نہیں، علیم بذات الصدور صرف اللہ ہے -ناقد کو خود اپنا محاسبہ کرناچاہیے کہ وہ اس وقت کس حالت سے گزررہا ہے -
بعض اوقات ناقد صرف اس لیے نقد کرتا ہے کہ امت کو آنے والے ممکنہ فتنوں سے بچایا جائے- اگر نقد نہ کیا گیا تو فتنہ کا دروازہ واہو جائے گا، جب کہ وہ جانتا ہے کہ بات درست ہے ، مگر روایت جو عند الشرع اور عند الناس معتبر ہے اس سے وہ بات ثابت نہیں ہے، اس لیے نقد کیا جائے گا -مثلاً صوفیہ کی محبوب احادیث میں سے ایک حدیث الفقر فخری کے بارے میں ناقدین علما نے نقد کیاہے- مگر یہ قول بالکل درست ہے اور معنیً قرآن سے ثابت ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایااللّٰہ الغنی وانتم الفقرائصوفیہ اللہ کے محتاج اور ماسوا اللہ سے مستغنی ہو تے ہیں -اب اگر یہ فقر فخر نہیں تو اورکیا ہے؟ مگر روایۃً یہ ثابت نہیں ،یا اس کے راوی بہت زیادہ ضعیف ہیں- اس لیے علمی طور پر نقدکی گنجائش باقی ہے-
بات چاہے جس قدر بھی سچ ہو اگر گواہ نہیں تو مقبول نہ ہوگی- لیکن وہ شخص جس نے تنہا کسی واقعہ کو دیکھا ہو اور گواہ نہ رکھتا ہوتو کیا اس شخص سے بھی کہا جائے گا کہ تم نے جو دیکھا ہے وہ غلط ہے؟اس کو سچ نہ جانو، ہرگز نہیں، مگر وہ گواہ نہیں رکھتا اس لیے دوسروں کو اس کا پابند بھی نہیں بناسکتا- اس واقعے کو سچ مانناا ورجاننا اس ناظر وشاہد کے حق میں بلا شبہ درست ہے مگر دوسروں کے لیے درست نہیں کیوں کہ یہ واقعہ معتبر روایت سے ثابت نہیں - صوفیہ کاشف اور شاہداوران تعبد اللّٰہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک کے مقام پر ہوتے ہیں- ان کی بات ان کے حق میں درست ہے،اگرچہ دوسروں کے لیے درست نہیں- اب عاقل ناقد وہ ہے جوسد ذرائع کی غرض سے نقد تو کرے مگر تنہائی میں ان مشائخ کی ارواح سے استعانت کرے جن پر نقد کیا ہے اور اللہ سے دعاکرے کہ مولیٰ ہم کو اور ہماری قوم کو فتنے سے محفوظ فرما- ناقد کے دل میں اگر تھوڑا بھی کدہو تو اس کو چاہیے کہ نقد سے پرہیز کرے، ورنہ وہ خود ہی سخت گھاٹے میں ہوگا-
فقہا، متکلمین، صوفیہ وغیرہم میں سے کوئی بھی ایسے نہیں جن پر نقد کی گنجائش نہ ہو بلکہ بڑے سے بڑا ناقد خود اپنے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس پر نقد کی گنجائش باقی نہیں ہے- معصوم تو صرف انبیاعلیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی ذوات ہیں -نہ ناقد کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے اور نہ لوگوں کو یہ چاہیے کہ وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ناقد اس ذات کا جس پر وہ نقد کررہا ہے ، یا اس کے تمام افکار وخیالات کامخالف ہے، کیوں کہ ہم میں سے کوئی بھی علیم بذات الصدورنہیں- اللہ برے گمان سے محفوظ رکھے- واجتنبواکثیراًمن الظن ان بعض الظن اثم-(الحجرات:۱۲)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں