Iman Ki Salamti Wali Namaz


ایمان کی سلامتی والی نماز

سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ جنھیں پیارسے ’’سلطان جی‘‘بھی کہاجاتا ہے،سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے بڑے بزرگ تھے،انھیں شیخ فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ نے اپنا جان نشیں بنایاتھا۔ان کے دادا خواجہ علی بخاری علیہ الرحمہ اور ناناخواجہ عرب بخاری علیہ الرحمہ بخارا کے رہنے والے تھے ،جو ہجرت کرکے ہندوستان آئے اور اس وقت کے ’’قبۃ الاسلام‘‘شہربدایوںکو اپنا مسکن بنایا۔خواجہ نظام الدین اولیاکی پیدائش وہیں ۶۳۶ ہجری مطابق ۱۲۳۸عیسوی ہوئی۔ان کا اصل نام محمدبن احمدہے اور لقب ’نظام الدین‘‘ہے۔جب تک باحیات رہے خدمت خلق اور تبلیغ دین میں مصروف رہے اور بالآخر۷۲۵ ہجری مطابق ۱۳۲۵ عیسوی میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ادارہ
خواجہ امیرحسن سجزی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ میں ۱۵؍ محرم الحرام سنہ ۷۱۰ ہجری بروزاتوار خواجہ نظام الدین اولیا   علیہ الرحمہ کی خدمت میںحاضرتھاکہ مشائخ کی کتابوںاوراُن فوائد کاذکرآیاجوانھوں نے تحریر فرمایا ہے۔
ایک عزیزنے عرض کیا کہ ایک شخص نے مجھے ’’اودھ ‘‘ میں ایک کتاب دکھائی اورکہاکہ یہ حضرت(خواجہ نظام الدین) کی لکھی ہوئی ہے۔محبوب الٰہی نے فرمایانہیں،اس نے غلط کہا، میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے،اس کے بعد فرمایاکہ:
 شیخ علی ہجویری رحمۃاللہ علیہ نے جب ’’کشف المحجوب‘‘ لکھی توشروع کتاب میں اپنے نام کاذکرکیا،اس کے بعد دو تین جگہ اورذکرفرمایا،پھراپنانام لکھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ:
 میںنے اس سے پہلے عربی اشعارکہے تھے،اوراُن میں اپنانام کہیں نہیں لکھاتھا،ایک جوان مردنے یہ غضب ڈھایاکہ وہ سارے اشعار اپنے نام کرلیے اورانتقال کے وقت بے ایمان ہوگیا۔
جب یہ قصہ پوراہوچکاتویہ تذکرہ آیاکہ :موت کی گھڑی بڑی کٹھن گھڑی ہے،اوریہ جاننابھی مشکل ہے کہ جانے والاایمان کے ساتھ گیایابے ایمان۔
مزید ارشادفرمایاکہ: ایمان کی سلامتی کی علامت یہ ہے کہ مرنے والے کاچہرہ رحلت کے وقت زرد ہوجائے اور ماتھے پرپسینہ آجائے۔اسی دوران یہ بات بیان فرمائی کہ انتقال کے وقت میری والدہ ماجدہ بھی سعادت کی یہی علامتیں رکھتی تھیں۔
اس کے بعد حاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ مغرب کی نماز کے بعددورکعت نمازایمان کی حفاظت کے لیے پڑھنی چاہیے، پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسات مرتبہ سورہ اخلاص یعنی ’’قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔‘‘اورایک مرتبہ سورہ فلق یعنی’’ قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ۔‘‘ اوردوسری رکعت میں فاتحہ کے بعدسات مرتبہ سورہ اخلاص اورسورہ ناس یعنی’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔‘‘اس کے بعد سرسجدے میں رکھ دے اورتین دفعہ کہے :’’یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ ثَبِّتْنِی عَلَی الْاِیْمَانِ۔‘‘
ترجمہ:اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اورسب کوقائم رکھنے والے! مجھے ایمان پرثابت قدم رکھ۔
پھراس نماز کی برکت کے سلسلے میں حکایت بیان فرمائی کہ میں نے معین الدین حسن سجزی قدس اللہ سرہ العزیزکے نواسے یاپوتے مرد صالح خواجہ احمدعلیہ الرحمہ سے سناہے ،وہ کہتے تھے کہ میرے ایک سپاہی دوست تھے،وہ برابر یہ دو رکعت نماز پڑھاکرتے تھے،چنانچہ ایک دفعہ نہایت غیرمناسب  وقت میں ہم اجمیرکے حدودمیں تھے،مغرب کی نماز کاوقت آگیا، ڈاکوئوں کاڈرتھا اورڈاکونظربھی آنے لگے تھے،ہم نے جلدی جلدی تین رکعتیں فرض اوردورکعتیںسنت پڑھیںاورشہرکی جانب آگئے۔ میرے دوست نے چوروں کا خطرہ دیکھ لینے اور اس کاخوف طاری ہونے کے باوجودایمان کی حفاظت کے لیے دو رکعت نمازاداکی۔الغرض جب اس جوان کی وفات کا وقت قریب آیاتو مجھے بھی خبرہوگئی،میں اُن کا حال جاننے کی غرض سے مرتے وقت اُن کے پاس گیا،انھوں نے اسی طرح رحلت فرمائی جیسا چاہیے تھا۔
خواجہ ذکرہ اللہ بالخیرنے ارشادفرمایاکہ خواجہ احمد علیہ الرحمہ نے اس شخص کی رحلت کا حال ان الفاظ میں بیان کیاکہ اگر مجھے عدالت کی کرسی کے سامنے لے جائیں تو میں گواہی دوں گاکہ وہ باایمان گیا:’’والحمدللّٰہ رب العلمین۔‘‘
مغرب کی نماز کے بعدمزیددورکعت کا تذکرہ فرمایااور اس کا ذکر اس طرح فرمایا کہ میرے ایک ہم جماعت دوست تھے،اُن کو مولاناتقی الدین کہتے تھے، وہ بڑے نیک ، سمجھداراورپڑھے لکھے تھے اور ہمیشہ مغرب کی نمازکے بعد دو رکعت نمازاداکرتے ،پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد: ’’والسماء ذات البروج۔‘‘اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد ’’والسماء والطارق۔‘‘پڑھتے،جب اُن کا انتقال ہوگیا توخواجہ ذکرہ اللہ بالخیرفرماتے ہیں کہ: میں نے انھیں خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟کہنے لگے کہ جب میرا کام تمام ہوگیاتو حکم آیاکہ ہم نے اُسے ان دورکعتوں کے طفیل بخش دیا۔
حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا کہ: کیا اس نماز کو  ’’صلٰوۃ النور‘‘کہتے ہیں؟فرمایا کہ نہیں اس کو’’صلٰوۃالبروج‘‘
’’صلوٰۃ النور‘‘اس دورکعت نماز کو کہتے ہیں جس کی دونوں رکعتوںمیں ’’سورۂ انعام‘‘ کی شروع کی آیات پڑھتے ہیں۔ پہلی رکعت ’’یستھزء ون ‘‘پر ختم کرتے ہیں اوردوسری رکعت میں ’’الم یروکم اھلکنا‘‘سے شروع کرکے ’’یستھز ؤن ‘‘ ہی پر ختم کرتے ہیں۔
پھر اس وقت کی اور طلوع کے وقت کی نماز کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایاکہ جب رات آتی ہے تو ایک فرشتہ کعبے کی چھت پر آکرپکارتا ہے کہ: اے اللہ کے بندواور اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کی امتیو!اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک رات یہ عنایت فرمائی ہے اور ایک رات تمھارے لیے آنے والی ہے اور وہ رات قبر کی رات ہے،اس آنے والی رات کے لیے اسی رات کو ذخیرہ کرلواور کچھ کام کرلواور وہ یہ ہے کہ دورکعت نماز پڑھو۔پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد پانچ مرتبہ ’’قل یاایھا الکافرون‘‘اوردوسری رکعت میں بھی یہی،اور جب دن نکلتا ہے تو یہی فرشتہ  بیت المقد س کی چھت پر آتا ہے اورندادیتا ہے کہ: اے اللہ کے بندواور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کی امتیو! اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک دن عطا کیا ہے اور ایک دن تمھارے لیے آنے والا ہے اوروہ روزقیامت ہے اور اس دن کے توشے کے لیے آج ایک کام کرلواور وہ یہ ہے کہ دورکعت نماز پڑھو،ہررکعت میں فاتحہ کے بعد پانچ مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی ’’قل ھو اللّٰہ ‘‘پڑھو۔
اس کے بعدفرمایاکہ: حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی علیہ الرحمہ نے اسے حدیث بتایاہے ،مجھے حدیث کے الفاظ یاد نہیں رہے ،مفہوم یہی ہے جوبیان کیا گیا۔


0 Comments

اپنی رائے پیش کریں