Baiat o Iradat


 بیعت و ارادت 

غلام مصطفیٰ ازہری  

بیعت
لغت:بیعت کامعنی خرید وفروخت کے ہیں، یہ لفظ دومتضادمعنی رکھتا ہے، عرف میں معاہدہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ فَمَن نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً۔‘‘(فتح،آیت:۱۰)
ترجمہ:جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی بیعت کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے توجس نے اس عہدکو توڑا،ا س نے اپنے بڑے عہد کو توڑا،اور جس نے اس عہد کوپورا کیا  جو اس نے اللہ سے کیا تھاتو اللہ اسے بہت ثواب دے گا۔
اصطلاح:طریقت کی زبان میں بیعت کا مطلب ہوتاہے کہ بندہ اپنے آپ کو آسانی یا تنگی ہرحال میں اللہ اور اس کے رسول کے سپردکردے اور ان کا حکم بجا لائے۔
ارادت
لغت: ارادت کا معنی چاہنا، قصدکرنا ہے،اس کا اسم فاعل مرید(ارادہ کرنے والا)ہے۔
اصطلاح:صوفیا کے نزدیک ارادت کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ کی آتش ارادت اس کی تمام خواہشات کوختم کردے۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُم‘‘(کہف،آیت:۲۸)
ترجمہ:اور اپنے آپ کو ان کے پاس روکے رکھوجو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں،اس کی رضا چاہتے ہیں اوراپنا رخ ان سے مت ہٹاؤ۔
بیعت ارادت: بندہ اپنے ارادہ واختیار سے یکسر باہر ہوکر اپنے آپ کو شیخِ مرشد ،ہادیِ برحق اور واصل حق کے ہاتھ میں بالکل سپرد کردے اسے مطلقا اپنا حاکم ومالک ومتصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بے اس کی مرضی کے نہ رکھے ۔
بیعت کا ثبوت:
قران :  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(۱) ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْبا۔‘‘(فتح،آیت:۱۸)
ترجمہ:بے شک اللہ ایمان والوںسے راضی ہوا جب وہ اس پیڑکے نیچے تمھاری بیعت کررہے تھے ،اللہ نے جاناجو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان پر اطمینان اتارا ،اورانھیںجلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔ 
(۲)’’إِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ۔‘‘(توبہ،۱۱۱)
ترجمہ:بے شک اللہ نے مسلمانوںسے جنت کے بدلے میں ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں۔
(۳) فتح،آیت:۱۰
(۴)کہف،آیت:۲۸
یہ آیتیں گذر چکی ہیں۔
حدیث:  نبی صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: 
(۱)سیدنا عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :بَایَعْنَا رَسُولَ اﷲِ صَلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَاَنْ لَانُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ۔‘‘  (بخاری ،الفتن،  باب ’سترون بعدی امور‘)
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس پر بیعت کی کہ ہر آسانی ودشواری ہر خوشی وناگواری میں حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چون و چرا نہ کریں گے۔
(۲)’’إِنَّ اللّٰہَ یَرْضَی لَکُمْ ثَلَاثًا، وَیَسْخَطُ لَکُمْ ثَلَاثًا، یَرْضَی لَکُمْ أَنْ تَعْبُدُوہُ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا، وَأَنْ تَنَاصَحُوا مَنْ وَلَّاہُ اللّٰہُ أَمَرَکُمْ، وَیَسْخَطُ لَکُمْ قِیلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَۃَ الْمَالِ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ۔‘‘ (صحیح ابن حبان۸/۲۸۱)
ترجمہ: بے شک اللہ تمھاری تین باتوں کو پسند فرماتاہے اور تمھاری تین باتوں سے ناراض ہوتا ہے ، تین باتیں جن سے اللہ راضی ہوتا ہے یہ ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو،اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اورتین باتیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے یہ ہیں ،قیل وقال کرنے سے،مال ضائع کرنے سے اور کثرت سوال سے۔
(۳) ’’عَنْ مَجَاشِعَ بْنِ مَسْعُود : أَنَّہٗ أَتٰی رَسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لِیُبَایَعَہٗ عَلَی الْہِجْرَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلی اللّٰہ علیہ و سلم : لَا بَلْ نُبَایِعُ عَلَی الاسْلامِ فَاِنَّہٗ لا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ فَتَکُونَ مِنَ الْبَایِعِیْنَ بِالاِحْسَانِ۔‘‘ (المعجم الکبیر۲۰/۳۲۵)
ترجمہ: مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تاکہ وہ ہجرت پر بیعت کریں،رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں،بلکہ ہم اسلام پر بیعت کریں گے ،کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں،تو احسان (اخلاص)پر بیعت کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
(۴)عنعُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلَی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّہِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفیٰ مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِکَ شَیْئًا فَسَتَرَہُ اللَّہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللَّہِ إِنْ شَاء َ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاء َ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلَی ذَلِکَ (بخاری،باب بیعۃ النساء)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایاکہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤگے، اورچوری نہ کروگے، اوربدکاری نہ کروگے،اور اپنی اولاد کو قتل نہ کروگے اورکسی پر بہتان نہ لگاؤ گے،اور اچھی بات میں نافرمانی نہ کروگے تو جس نے اس عہد کو پورا کیااللہ اس کو اجردے گااورجس نے ان میں سے کسی عہد کوپورا نہیں کیا،اگراس دنیامیں اس کو سزادی جائے تو یہ ا س کے لیے گناہوں کا کفارہ اور پاکی ہے اور جس نے ان میں سے کسی عہد کوپورا نہیں کیا اور اللہ نے اس کو چھپالیا تو یہ اللہ کی مرضی پر ہے ،وہ چاہے گا تو معاف فرمادے گا اور اگر چاہے تو سزادے گا ۔
حضرت عبادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ علیہ وسلم سے ان ہی پر بیعت کی۔
مرید:اس کو کہتے ہیں کہ جو اپنے ارادہ واختیار سے باہر آجائے اوراپنے آپ کو فنافی الشیخ(یعنی اپنے ارادہ و اختیار کو شیخ کے حوالے ) کردے،کیونکہ شیخ کے زیرحکم ہونا ،اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرحکم ہوناہے اورشیخ کی نافرمانی کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ۔‘‘
یعنی علمائے ربانی اور مشائخ کرام ہی انبیاکے اصل وارث ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادفرماتا ہے:
’’وَاتَّبعَ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ۔‘‘
ترجمہ:اس کی اتباع کرو جومیری طرف مائل ہو۔
اور دوسرے مقام پر فرماتاہے:
’’وَلَاتُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا۔‘‘
ترجمہ:اور اس کی اتباع نہ کرو جس کے دل کو میں نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے۔
مرشد:مکمل طورپر نائب نبی ہوتاہے ،مرشد کے لیے بہت ساری شرطیںہیں،لیکن ان میں سے کم از کم درج ذیل شرطوں کاپایاجانا ضروری ہے:
۱۔صحبت واجازت کا سلسلہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتاہو۔
۲۔سنی صحیح العقیدہ ہو۔
۳۔ضروریات کے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
۴۔فاسق معلن نہ ہو۔
۵۔نفس کی خرابیوں،خواہشات اور شیطان کی مکاریوں سے آگاہ ہو،اور ا س کا علاج بھی جانتا ہو۔
۶۔دوسروں کی تربیت کرسکتاہو،مریدین پر شفقت رکھتا ہو ،اور ان کے عیوب پر انھیں مطلع بھی کرتا ہو۔
۷۔خود بھی کامل ہو اوردوسروں کوبھی کامل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ 
۸۔نہ محض سالک،نہ محض مجذوب ہو،بلکہ سالک مجذوب یا مجذوب سالک ہو۔
تنبیہ:آج کل کی جتنی بھی بیعتیں اورخلافتیں ہیں،وہ سب محـض تبرکاََ ہیں یا محض رسما ً،اُن پربیعت وخلافت کا اطلاق نہ کرنا ہی زیادہ مناسب اور بہتر ہے،کیونکہ دنیا وآخرت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’آج کل عام بیعتیں یہی ہیں، وہ بھی نیک نیتوں کی، ورنہ بہتوں کی بیعت دنیاوی اغراض فاسدہ کے لئے ہوتی ہے۔ وہ خارج ازبحث ہے۔‘‘  (فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۵۰۷)
البتہ!بیعت تبرک کا فائدہ اتنا ہے کہ صاحب سلسلہ سے محبت رکھنے والوں میں شمارہوگااورممکن ہے کہ ان سے محبت رکھنے کے سبب کل قیامت میں شفاعت نصیب ہو جائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:   ’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ۔‘‘
یعنی قیامت کے دن وہ اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ خلافت کی مذکورہ شرطوںمیں سے پہلی چارشرطیںجولوگوں میں مشہور بھی ہیں، یہ پیر اتصال کی شرطیں ہیںاور پیر اتصال سے بیعت ہونا تبرک محض ہے،اس لیے پیر ایصال کی تلاش اور ان کامرید حقیقی بنناضروری ہے ۔



0 Comments

اپنی رائے پیش کریں