اسرارالتوحید
شیخ محمد بن منور
شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی علیہ الرحمۃ والرضوان پانچویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ اورنظریۂ وحدۃ الوجود کے مبلغین میں سے ایک اہم ہستی ہیں۔ ان کی پیدائش ’’خراسان‘‘ کے ’’میہنہ‘‘ گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ وفات پائی ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید ‘‘ ان کی شخصیت اور ارشادات پر مشتمل ہے جو شیخ محمد بن منور نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کاترجمہ بنام’’اذکار السعید‘‘ مولانارکن الدین سعیدی نے کیا ہے جسے عام افادیت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ
مجھ سے پہلے میرے چچازادبھائی امام جلیل شیخ جمال الدین ابوروح لطف اللہ بن ابوسعید نے ایک مریدکی التماس پر ایک مجموعہ مرتب کیاتھاجوپانچ ابواب پرمشتمل ہے۔ہر باب میں انھوں نے سندکی تخریج کے ساتھ ایک حدیث نقل کی ہے اوراس حدیث کے مقاصد ومطالب کی شرح وبیان کے لیے ایک مستقل فصل کااضافہ فرمایاہے۔انھوں نے اپنے فضل وکمال کے اعتبارسے اس مجموعے کوفصاحت اورسلاست کے اعلیٰ معیار پر قائم رکھااورشیخ ابوسعیدقدس اللہ روحہ العزیز کے حالات ومقالات کا مکمل نچوڑپیش کیا،ان خوبیوں کے باوجود انھوں نے اس مجموعے کوبہت ہی مختصرتحریرکیا۔
میں نے ہرگزیہ نہیں سوچاتھاکہ اس قیمتی مجموعے کے مقابلے میں اپنی ناقص کتاب کی نمائش کروں،یاشیخ ابوروح کے اس فصیح وبلیغ مجموعے کے سامنے اپنا یہ ناقابل اعتبار مکتوب پیش کروں،میں خودکو اس کااہل نہیں پاتاکہ ان بزرگوں کے مرتبے تک میری رسائی حاصل ہوسکے،یااپنے علم وہنرکے کسی بھی جزوکاسہارالے کرشیخ ابوروح کے مقام وبزرگی کے قریب تک پہنچ سکوں۔ہاں!یہ محاورہ ہے کہ:
’’ رشتہ اورتعلق کے لحاظ میں جواہر کے ساتھ اس کوبھی شامل کرلیتے ہیں جوبہ ظاہر ویساہی نظرآئے۔‘‘
اس بنا پر بس اتنی آرزوتھی کہ جوکچھ بھی شیخ محترم ابوروح نے ترتیب دیاہے اس کواورجوکچھ مجھ دعاگوکومل سکاہے اورجس قدر شیخ کے مبارک کلمات وآثار صحیح ثابت ہوئے ہیں تحریر کروں، تاکہ وہ لوگوں تک زیادہ سے زیادہ پہنچ سکیں،اور ’’خر اسان و میہنہ‘‘ کے حادثے میں جو کچھ مٹ گیا ہے، وہ پھرسے تازہ ہو جائے ،اور میرے بعد باقیات صالحات کے طور پر یادگاربن جائے ۔اس لیے کہ یہ بات سب کومعلوم ہے کہ لوگوں کو جس قدر زمانے سے دوری ہوگی،اسی قدر ہمتوں میں کمی اور حوصلوں میں پستی آئے گی اور سالکین راہ طریقت کم پائیں گے ۔
علم میں ہر ایک کومہارت حاصل نہیںہوتی اور میرا اپنا مقابلہ کبریت احمرکی طرح ہے، اگرچہ اس سے اکسیر بنتی ہے مگر وہ نایاب ہے ۔ میری کوششوں کی وجہ سے جو کچھ بھی ہاتھ آئے گا اس کی افادیت بہر حال اس سے کم نہ ہوگی ،کیوںکہ یہ ان بزرگ ہستیوں کے ارشادات اورحالات ہیں جو یکتائے زمانہ ہیں،ان کے معتقدین کوخوشی مل جائے گی،اورسالکین راہ طریقت کو ایک خوشگوارلمحہ ہاتھ آجائے گا ، مثال کے طورپر کسی کہنے والوں نے سچ ہی کہا ہے کہ :
گرتنگ شکر خرید می نتوانم بارے مگس از تنگ شکرمی رانم
یعنی اگر ایک بوری شکر نہیں خرید سکتاتو نہ سہی،کم ازکم شکر کے ڈھیر سے مکھی تواڑاہی سکتاہوں ،نیز مشائخ کا ارشاد ہے کہ :
’’عِنْدَ ذِکْرِالصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃ ُ۔‘‘
یعنی نیک ہستیوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔
عام طورپر انسانوں کے حالات اور اُن کے کارنامے تین درجات پرمشتمل ہوتے ہیں:
۱۔ابتدا
۲۔اوسط
۳۔ انتہا
اسی لیے میں نے اس مجموعے کو تین ابواب پر ترتیب دیا ہے ۔
پہلا باب :اس میں شیخ قدس اللہ روحہ العزیز کے ابتدائی حالات اور واقعات ہیں جوبچپن سے لے کر چالیس سال کی عمر تک پیش آنے والے حالات وکیفیات کی تفصیل پر مشتمل ہے اور حصول علم ،ریاضات ومجاہدات کے زمانے کے بارے میں جوبھی باتیں ہم تک پہنچ سکیں وہ سب کتاب میں شامل ہیں،مزید آپ کے مرشدوں اور مشائخ کا تذکرہ اورسیدنا محمد مصطفی صلوات اللہ وسلامہ علیہ تک ان کے علم اور خرقے کی سند کی تشریح بھی مذکور ہے۔
دوسرا باب :اس میں شیخ قدس اللہ روحہ العزیز کی زندگی کے درمیانی واقعات و حالات کی تشریح ہے۔ یہ باب تین فصلوں پر مشتمل ہے ۔
پہلی فصل :ان حکایتوں پر مبنی ہے جس میںشیخ ابوسعید کی ذات سے ظاہر ہونے والی کرامات کا تذکرہ ہے ،لیکن اس میں وہی کرامات قبول کی گئی ہیں جو ہمارے نزدیک قابل اعتماد ناقلین سے روایت ہو کر درجۂ صحت تک پہنچتی ہیں ۔
دوسری فصل :اس میں ان حکایات کا بیان ہے جن میں بہت سے فائدے ہیں ،کچھ دوسرے مشائخ کے ارشادات و واقعات بھی اس لیے شامل کرلیے گئے ہیں کہ اُن واقعات کو شیخ نے اپنی مجلسوںمیں بیان فرمایا۔
تیسری فصل :اس میں ایسے فوائد اور نکات کی تفصیلات ہیں جو شیخ کے ارشادات میں بکھرے ہوئے تھے اور اُن کے کچھ تبلیغی ارشادات بھی درج ہیں ،نیز شیخ کی زبان سے ادا ہونے والے متفرق اشعار اور چند ایسے خطوط و رسائل بھی شامل ہیں جو شیخ کی طرف منسوب ہیں ۔
تیسراباب:اس میں شیخ قدس اللہ روحہ العزیز کی انتہائی حالت و کیفیت کی تفصیل ہے ،اس کی تین فصلیں ہیں ۔
پہلی فصل :شیخ کی وصیتوں کے ذکرمیں ہے ۔
دوسری فصل : وفات کی کیفیت کے بیان میں ہے ۔
تیسری فصل :ان کرامات کے بیان میں ہے جو اُن کی وفات کے بعد ظاہرہوئیں،ان میں وہ کرامات بھی شامل ہیں جن کے متعلق شیخ نے اپنی زندگی میں ہی آگاہ فرمادیا تھا ،کچھ ایسی کرامات بھی ہیں جن کو اُن کی وفات کے بعد لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
واضح رہے کہ اس کتاب کا نام ’’اسرارالتوحید فی مقامات الشیخ ابی سعید ‘‘تجویز کیا گیا ہے ۔اس مجموعے کی تکمیل کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے رہنمائی کی توفیق طلب کی گئی تھی ، اختصار کے مدنظر سندیں حذف کردی گئی ہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے کمال فضل وکرم اور لطف وعنایت کی توفیق ہمیں عطا فرمائے اور راہ طریقت کے مطلوبہ حقوق ،اہل عقیدہ کو عطافرمائے ، روگردانی اورعیوب ونقائص سے محفوظ رکھے:’’وَنَعُوذُبِاللّٰہِ مِنَ الْحورِ بَعْدَالْکَوْرِ فَاِنَّہ خَیْرٌمُوَفِّقٌ وَمُعِیْنٌ۔‘‘
یعنی ہم بلندی وترقی کے بعدنقصان وخسارے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،بے شک وہ بہترین توفیق دینے والااور سب سے اچھامددگارہے۔ (باقی آئندہ)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں