شاہد رضا ازہری
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑاا حسان کیا کہ ان ہی میں سے ان کے درمیان ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، ارشادباری تعالیٰ ہے :’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُولا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوا عَلَیْھِمْ آیَاتَہٗ وَیُزَکِّّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلٰل مُبِیْن۔‘‘ (اٰل عمران : ۱۶۴)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے ان ہی میں سے ایک رسول بھیج کر مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا جو اُن کے سامنے اللہ کی آیتیں پیش کرتا ہے ،انھیں پاک کرتاہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے جبکہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیامیں جتنے بھی انبیا ومرسلین بھیجے سب کو کچھ نہ کچھ معجزے اور خصوصیات سے نوازا،جنھیں دیکھ کرپچھلی امتوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا اور ان کی نبوت ورسالت کی تصدیق کی۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی بارگاہ سے معجزے اور خصوصیات عطا ہوئے،جیسے قرآن کا نزول، انگلیوں کے بیچ سے پانی کا نکلناوغیرہ،لیکن معراج کی شکل میں جو خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔
معراج کا لغوی معنی :’معراج‘ کا معنی ہے آلۂ عروج یاچڑھنے کی جگہ،یہاں آسمان پہ جانا مرادہے۔
شرعی واصطلاحی معنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیداری کی حالت میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اورپھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دیدارسے شرفیاب ہونا معراج ہے۔
معراج کے تعلق سے قرآن مقدس میں ہے کہ:
’’سُبْحَانَ الَّذِی اَسْریٰ بِعَبْدِہ لَیَلا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل )
ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ۔
اسریٰ :اسریٰ عربی لفظ ہے جو’سری‘ سے بنا ہے ،اس کا معنی ہے رات میں چلنا ۔
سفر معراج کی حکمتیں :
۱۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و سیادت اور رفعت وعظمت کو واضح کرنا ،اور امت محمدیہ کا رشتہ انبیائے سابقین اورپچھلی امتوں سے مضبوط کرنا،چنانچہ جب شب معراج آپ مسجد اقصیٰ پہنچے توتمام انبیا ومرسلین کی امامت فرمائی، اسی کی برکت ہے کہ امت محمدیہ قیامت کے دن پچھلی امتوں پرشاہد ہوگی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ لِتَکُونُوا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیلکوُنُ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدا۔‘‘(بقرہ : ۱۴۳)
یعنی تم گزشتہ امتوں پر گواہ ہو گے اور رسول تمہارے اوپر گواہ ہیں ۔
۲۔واقعہ معراج کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوحادثے پیش آئے ،ایک تو آپ کے غم خوار و مددگا ر چچا حضرت ابوطالب حادثہ ہمدرد وغمگسار شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکاوصال ہوگیا ،ان دونوں واقعات سے آپ کواتناصدمہ پہنچاکہ یہ سال کانام’’ عام الحزن‘‘ یعنی غم کاسال کہلایا،یہ معجزہ اللہ کی جانب سے آپ پر انعام تھا اوراس سفر میں عجیب وغریب واقعات کا مشا ہدہ بھی کرایا گیا تاکہ آ پ کو ایک انبساطی کیفیت حاصل ہو ۔
۳۔ معر اج ایک معجزہ ہے جس کی وجہ سے لوگ گرویدہ ہوتے ہیں ، مکہ والوںکو ملک شام کے سفرمیں ایک ماہ لگ جاتا تھااور وہاں سے واپس آنے میں بھی ایک ماہ لگ جاتا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ایک مختصرسے حصے میںملک شام گئے اور وہاں سے آسمان پرتشریف لے گئے پھرلوٹ بھی آئے۔یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے ایک امتحان اورآزمائش تھا خاص کر ان لوگوں کے لیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرچکے تھے ۔
جیساکہ مضبوط ومستحکم ایمان والے کامیاب ہو گئے اور کمزور ایمان والے ناکام ہو گئے ،کیونکہ وہ اسے جھوٹ تصور کرتے تھے ۔اس طرح مسلمانوں کی جماعت منافقین سے پاک وصاف ہوگئی۔
۴۔ مکہ مکرمہ سے ’بیت المقدس‘جانااور پھروہاںسے سفر معراج کے لیے جانا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ دین محمدی نے سارے مذاہب کو منسوخ کر دیا اور اب سب کے لیے ایک ہی دین ہے ’دین اسلام‘ چاہے وہ جس رنگ اورقبیلے سے ہوں ۔
۵۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی سفر میں امت کے لیے پنج وقتہ نماز کا تحفہ لے کر آئے جواللہ اور بندہ کے درمیان تقرب کا بہترین ذریعہ ہے کہ نماز ہی کے ذریعے ایک مومن بندے کو معراج حاصل ہوتی ہے اور روحانی طورپر وہ اللہ سے قریب ہوتاہے،ارشادہے:’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ ۔‘‘(بخاری)
ترجمہ:تم اس طرح اللہ کی عبادت کروکہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہوسکے کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو تو یہ خیال کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
اسریٰ یعنی معراج اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور رازوں میں سے ایک راز ہے جس کی حکمتوں اور فضیلتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا ۔
معراج کے اثرات
۱۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری دنیا کا خالق و مالک ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں کہ اپنے کسی بندے کو آسمان کی سیر کرائے، ہاں! اس کی کیفیت کا ادراک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس راز کو کفار قریش سمجھ نہ سکے اوربرانگیختہ ہوگئے۔کسی بھی ذی ہوش سے یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کے قانون ونظام کا پیدا فرمانے والا ہے،حرکت و سکون، جاذبیت اور تیزرفتاری سب اس کی قدرت کے تحت ہیں ، سارے اختیارات اسی کے ہیں ،اللہ جو چاہے اور جیسے چاہے کرے۔
۲۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال سے آگاہ ہوتاہے کہ اس کی قدرت عظیم ہے جس نے ہر چیز کو پیدافرمایا ہے تو اُسے دلی اطمینان حاصل ہوتاہے اوراس کے ایمان میں مضبوطی واستحکام پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی اختیار کرتا ہے، اس میں اس کی اصلاح مقصود ہوتی ہے اوروہ جو بھی چاہتا ہے اس میں اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے،وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز اس کے دائرۂ اختیار میں ہے ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمارنعمتوں سے نوازہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا ۔ ہاں!یہ بات ضرور ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عنایت خداوندی کے بغیر اس کا دیدار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر گئے اورآپ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا جو انسان کی گفتگو کے مشابہ نہ تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جسمانی ، روحانی وعرفانی سفر میں آپ کو بے شمار نعمتوں سے بھی نواز ا، تاکہ آپ کا قلب مضبوط ہو جائے اور رشد وہدایت کی مکمل قدرت حاصل ہوجائے ۔
۴۔ شب معراج کی صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی سے اس رات کی بات بتا رہے تھے تو ام ہانی نے عرض کیا کہ: اس بات کو کسی سے نہ بتائیں ،کیونکہ مکہ والے آپ کو جھٹلائیں گے۔ وہ ان کے عناد وتعصب اور اسلام دشمنی کو جانتی تھیں کہ جو بھی موقع ہاتھ لگ جاتا ہے مشرکین اس سے فائدہ اٹھالیتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا ،اس لیے کہ آپ کو حق کاپیغام عام لوگوں تک پہنچانا تھا اوروہ دعوت وتبلیغ کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی خبر دی تو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلانے لگے اور کہنے لگے کہ بیت المقدس کی صفت بیان کرو۔چنانچہ کفار مکہ سوال پوچھتے جاتے اورآ جواب عنایت فرماتے جاتے، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَمَّا کَذَّبَتْنِی قُرَیْشٌ قُمْتُ فِی الْحِجْرِ فَجَلَا اللّٰہُ لِی بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آیَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْہِ۔‘‘(بخاری )
میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے سنا کہ جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں میزاب کعبہ کے نیچے کھڑا ہوگیاتو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو منکشف کردیا،پھرمیں بیت المقدس کو دیکھ دیکھ کر انھیں اس کی علامات کی خبر دیتا رہا۔
۵۔ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات مسجد حرام سے بیت المقدس گئے اور تمام نبیوں کی امامت فرمائی اور پھراپنے رب کی دیدار کے لیے تشریف لے گئے۔
۶۔ واقعہ معراج ہمیں یہ بھی بتاتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سا۲ری باتیں دنیاکے سامنے مشاہد ہ کے ذریعے پیش کیں ۔اللہ تعالی ہم سب کو سیرت نبوی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں