اسلام اور کسب معاش کاتصور
مولاناشاہد رضاازہری
اللہ تعالی نے جب انسانوں کو عدم سے وجود کی منزل عطا فرمایا تو ان کے اند رایک ایسا ملکہ ا ورقوت بھی پیدا کیا جس کے ذریعے کسب معاش اورحلال رزق کی تلاش وجستجو میں لگا رہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک کسب معاش اور حلال روزی کی طلب میںمشغول رہنا نہایت مستحسن عمل ہے، مگر اقتصادیات میں کوشاں رہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان حقوق العباد سے غافل ہوجائے ۔
یہی سبب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام زندگی کے آداب وطریقے سکھانے کے ساتھ کسب معاش اورحلت و حرمت کے مابین حدود متعین فرمایا کہ کس طورپر کسب معاش اورحلال رزق حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
اب ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظرسے کسب معاش کے طریقے کیا ہیں ؟تو اسلامی مفکرین کے نزدیک :اسلامی معاشیات ان وسائل کے علم کا نام ہے جنھیں انسان اس معاش یا ذرائع معاش سے استفادہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں انھیں امین و نگراں بنایا گیا ہے تاکہ اس طرح حدیث مطہرہ کے مقررہ منہج کے مطابق فرد اور معاشرے کی معاشی حالات کی تکمیل ہو۔
کچھ باطل پر ستوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کاسہارا لے کر یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’ مذہب اسلام میں زینت رواہی نہیں ہے۔‘‘
جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ۳۲ (سورۂ اعراف)
یعنی اے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! ان سے کہہ دیجئے کس نے اللہ کی زینت کو حرام کردیا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نےاللہ کی بخشی ہوئی چیزیں ممنوع کردی ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَى تَقْوَى اللهِ الْمَالُ۔(کنزالعمال،جز:۳)
یعنی اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہی تو ہے کہ تقوی حاصل کرنے میں مال بڑا مدد گار ہوتا ہے۔
آرام دہ ،عیش وعشرت کی زندگی اور مادی وسائل ہر ایک کو محبوب و مطلوب ہے۔ اگر انسان کے پا س وسائل موجود ہوں تو ہر کس وناکس کے سامنے دست غربت وافلاس دراز کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، لیکن مال و متاع کی تباہی اوربربادی انسان کو ایسی حرکت پر مجبور کردیتا ہے۔ بایں وجہ انسان کبھی چوری جیسے گھنائونے کام بھی کرنے لگتے ہیں ۔ قلاش وکنگال کو ایسی نوبت آجاتی ہے کہ فاقہ کشی اور تنگدستی کی زد میں ایسے کلمات کہہ جاتے ہیں جس کا اُنھیں احساس تک نہیں ہوتا ہے۔اگر ضروریات اصلیہ کے سارے سامان موجود ہوں تو کیوں کر انسان اس قسم کے الفاظ اپنی زبانوں سے نکال سکتے ہیں۔
رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مِنْ سَعَادَةِ المَرْءِ الْمُسْلِمِ اَلْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ۔(الادب المفرد،الجارالسوء)
یعنی نیک مسلمان کی نیک بختی اس میں ہے کہ اس کے پاس واسع مکان ہو، اچھاپڑوسی ہو،اوراس کے پاس اچھی سواری ہو۔
اگر یہ ساری چیزیں موجود ہوں گی تو انسان خوبصورت و زریں راستے پر گامزن ہوگا ۔چنانچہ سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَللّٰہُمَّ إنِّي أعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفَقَرِوَ الْقَلْقَۃِ وَالذِّلَّۃِ۔
یعنی یااللہ !میں فقیری ،افلاس اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔
غربت وقلاشی انسانی فلاح وترقی کی دشمن ہے جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے، کیونکہ اس سے دوسری ہزاروں برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ اسی لیے رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فقرو فاقہ سے بچنے کے لیے دعا بھی فرمائی ہے۔
بانی اسلام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم چاہتے تھے کی انسان کی معاشی زندگی ہمیشہ اچھی ہو، انسانوں کے لیے وہ تمام رکاوٹیں دور ہوں جو کہ اجتماعی نظام زندگی کی نشونما کی راہ میں حائل ہیں، تاکہ اجتماعی حالت خوشیوں سے لبریز ہو ،کوئی فرد خستہ حال ا ورتنگدست نہ ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیااورمعاشی آسودگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیاجائے۔ کچھ لوگ دنیا کو ہمیشہ کے لیے جائے پناہ سمجھ لیتے ہیں انھیں سوچنا چاہیے کہ دنیا میں زندگی گذارنے والی عمر انسانی زندگی کاایک مختصر اورچھوٹا سا حصہ ہے ۔اس کے بعد آخرت کی زندگی ہی تو اصل زندگی ہے جو ہمیشہ کے لیے رواں دواں رہے گی ۔ اس لیے مقصد انسانی ایسے فلاح وبہبود کے لیے مرکوز نہیں ہونا چاہیے جو صرف دنیا کی زندگی تک محدود ہو بلکہ آخرت کے لیے بھی سامان زیست ہونا چاہیے ، یہی وہ بات ہے جو اسلامی معاشی نظام اور دوسرے نظاموں کے مابین فرق پیدا کردیتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ ان باتوں کی تردید ومخالفت کی ہے کہ معاشرے کی خاطر فرد کامل کو مذبح کی نذر نہیں کیا جائے گا اورنہ ہی انھیں نظر انداز کرکے منہ موڑ لیا جائے گا۔
مذہب اسلام ایسے برتائو کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ فرد کی خاطر جماعت کی قربانیاں پیش کی جائیں یا جماعت کی خاطر فرد کو بھینٹ چڑھا یا جائے،چنانچہ حضور صلی اللہ تعالی وسلم نے کسب معاش کے چنداصول مقررفرمائے ہیںاور ایسے اشخاص کے لیے اسے جانناضروری قراردیاہے جو مختلف قسم کے معاشی اوراقتصادی سرگرمیوں،مثلاََ: زراعت،تجارت ، صنعت ، حرفت اور دستکاری وغیرہ میں مشغول رہاکرتے ہیں۔گذشتہ زمانے میں ایسے افرادپرکڑی نظر رکھی جاتی تھی کہ کہیں ایسے افراد بازارمیں تو نہیں ہیںجنھیںان اصولی علوم سے واقفیت نہیں ، حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص کو بازار بھیجا کرتے تھے کہ وہ بازار سے ایسے لوگوں کو اٹھا دیا کریں جو خرید وفروخت میں اسلامی احکام سے ناواقف ہوا کرتے ہیں،ابو عبداللہ بن الحاج فرماتے ہیںکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ درہ مارتے تھے جو بازار میں بیچتے تھے اور وہ احکام نہیں جانتے تھے۔ آپ نے فرمایا جو رِبا (سود) نہیں جانتا ہے وہ ہمارے بازار میں نہ بیٹھا کرے۔
عام طور سے اسلام کے بارے میں یہ غلط افواہ ا ور پروپیگنڈہ پھیلائی جاتی ہے کہ: وہ خوش حالی کی طلب اور معاشی جد جہد کو محبوب نظروں سے دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ صرف ایک نا گزیر برائی سمجھ کراسے تسلیم کرتا ہے۔ اسلام کے تعلق سے ایسے خیالات وافکارنہ صرف غلط ہیں بلکہ ایک طرح سے اسلام غلط الزام بھی ہے ،کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جملہ وسائل کو انسان کے استفادے کے لیے بنایا ہے کہ اللہ کے بندے کھلے دلوں سے اپنے رب کریم کی نعمت عظمی کو خوب استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۱۱(سورۂ ضحی)
یعنی اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔
اپنی ضروریات کی تکمیل کرکے بالقصد پر لطف زندگی گذارنے کا اہتمام کرو جیسا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۱۰ (سورۂ اعراف)
یعنیہم نے تمھیں زمین کے اختیارات کے ساتھ تمہارے لیے یہاں زندگی کاسامان فراہم کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ان باطل پرستوں کا رد فرمایا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : اسلام میں خوش حالی کی طلب اور معاشی جد وجہد کو محبوب نظروں سے دیکھا نہیں جاتااور صرف ایک نا گزیر برائی سمجھ کر اسے تسلیم کرلیاجاتاہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج جدیدمعاشی نظام لاکھ دعویٰ کے باوجودہر فردانسانی کو معاشی اعتبارسے تسکین دینے میں ناکام ہے ،حالانکہ یہ اکیسویں صدی کادور ہے جس میں سائنٹفک معلومات ، اختراعات وایجادات ، صنعت وحرفت اور وسائل کی ترقی نے دنیا کوحیرت میں ڈال دیاہے، پھربھی اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب نہیں ہے۔اس کے برعکس اگر اسلام نے جو کسب معاش کا نظریہ پیش کیا ہے اس کو آج ایمانداری سے اپنالیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ نسل انسانی کا ہر فرد معاشی اعتبارسے مضبوط ومستحکم نظرآئے گا،کیونکہ اسلام میں اصل اہمیت فردکی ہے نہ کہ جماعت وقوم کی، اس لیے کہ فرد کا وجود جماعت کے لیے اٹوٹ حصے کی حیثیت رکھتاہے۔
اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جماعت کا وجود فرد سے وابستہ ہے ،کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک جماعت وقوم مجموعی طور پر جواب دہ نہ ہوگی، بلکہ ہر فرد ذاتی طور پر جواب دہ ہوگا۔ یہاں اجتماعی زندگی سے مقصود مجموعی خوشحالی نہیں ہے بلکہ ہر فرد انسان کی فلاح وبہبود مقصود ہے اور ایک ایسے صالح اجتماعی معاشی نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر شخص ترقی وخوشحالی کی طرف مائل ہو۔اسلام ایسے نظام اجتماعی کو ہر گز پسند نہیں کرتا ہے جس میں فرد اجتماعی شکنجے میں پیچ وتاب کھا تا رہے اور انھیں فروغ وارتقا کا موقع بھی میسر نہ ہو ۔
اس لیے کہ اشرف المخلوقات کی انفرادی اوردلکش وعمدہ نشونما اور ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک کہ اُسے فکر وعمل کی آزادی حاصل نہ ہوجائے ،صرف آزادی رائے ، آزادی تحریر، آزادی تقریر اور آزاد سوسائٹی ہی ضروری نہیں ، بلکہ آزادی معاش بھی ضروری ہے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں