Islam Aur Kasb e Maal Ka Tasawwur

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

اسلام اور کسب مال کا تصور
مولانا شاہد رضا ازہری

 اسلام نے انسان کی رہنمائی زندگی کے ہر موڑپر کی ہے،چاہے گھریلو زندگی ہو یا عوامی،تجارت کی دنیا ہو یادولت کمانے کی،گویا اسلام نے ہر اعتبارسے انسان کے لیے کچھ ایسا اصول اورضابطہ مقررکیاہے کہ انسان اگر سچے دل سے اپنالے تواسے اللہ کاانعام بھی حاصل ہوگا اوراس کی روزی روٹی بھی حلال ہوجائے گی۔ اس لیے مال ودولت حاصل کرتے وقت سب سے پہلے یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ دولت حاصل کرنے کا اسلامی نظریہ کیا ہے؟اسلام نے کس طرح سے مال حاصل کرنے کی اجازت دی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جس راستے سے انسان مال واسباب جمع کررہا ہے وہ راستہ اسلامی نظریے کے خلاف ہو۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان مال ودولت سے اس قدر محبت کرتاہے کہ وہ مال ودولت ہی کوسب کچھ سمجھ لیتاہے کہ یہ مال ہی اصل زندگی ہے اوریہی اس کی نجات کا ذریعہ ہے،جو ایک طرح کی ناسمجھی اور نادانی ہے، کیونکہ کال مارکس کی طرح مادہ پرست ہونا اور مال ودولت ہی کو سب کچھ تصورکرلینایہ ایک سیکولرزم اورکمیونزم کی سوچ توہوسکتی ہے ، لیکن ایک صالح اور نیک مسلمان کی فکر ہرگز نہیںہو سکتی ہے ۔
کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ ایک سادہ لوح مسلمان مادہ پرست شیطانوں کے بہکاوے میں آ جاتاہے اور پھروہ اپنے دین سے یوںالگ ہوجاتاہے کہ برائے نا م ہی مسلمان باقی رہ پاتاہے،اور پھرایک دن وہی مسلمان اسلام پر طعن وتشنیع اور زبان درازی کرنا شروع کردیتا ہے، جس کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ نہ وہ مال کمانے کے صحیح اسلامی اصول سے باخبرہوتا ہے، نہ اسے قانون ساز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی اسے اپنی تخلیق کا مقصد معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اسے کیوں پید ا فرمایاہے،اس لیے کہ اگر اسے اپنی  حیات کامقصد معلوم ہوتا تووہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر مال کو فوقیت نہیں دیتا ،بلکہ رب کائنات جل جلالہ کی عبادت وریاضت کرتا اور اس کی معرفت حاصل کرتا،جیساکہ ا للہ تعالی کاارشاد ہے :
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون۔(سورہ ذاریات،آیت:۵۶)
یعنی میں نے جنات ا ورانسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
 اس آیت مقدسہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ یہاں’’ لیعبدون‘‘ سے مرا د ’’لیعرفون‘‘ہے۔
 اب مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی معرفت کے لیے پید ا فرمایا ہے، اس سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ بندوں کی پیدائش صرف اللہ کی عبادت ومعرفت کے لیے ہوئی ہے نہ کہ محض دولت کمانے کے لیے۔ہاں!البتہ مال ودولت کو اس فانی دنیامیں زندگی گزارنے کے لیے اسباب ضرور بنا یاہے ۔
اب اگر اللہ تعالی انسان کو مال ودولت عطا فرماتاہے تو یہ اس کا فضل واحسان ہے اور اگر وہ انسان کو مال ودولت عطا نہیں فرماتاہے تو یہ اس کا عدل وانصاف ہے۔ جب اللہ تعالی مال و دولت سے نواز تاہے تو اس کا صحیح استعمال کرنا بھی لازم وضروری ہے۔اس تعلق سے مرشد العلماء داعی اسلام حضرت خواجہ ابو سعید شاہ احسان اللہ حفظہ اللہ کی وہ مجلس یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھاکہ:
 مال کمانا کوئی عیب نہیں ہے لیکن انسان اس مال ودولت کو اس نیت سے حاصل کرے کہ وہ مال اس کے لیے آخرت میں نجات کاذریعہ بن جائے اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے تاکہ اس کا مال پاک بنادیا جائے تو وہ مال:’’ الدُنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ۔‘‘یعنی دنیاآخرت کی کھیتی ہے ،کے مصداق ہوگااور اس مال سے انسان فلاح وبہبود حاصل کرسکتاہے ، ورنہ بصورت دیگر وہی مال اس کے لیے فسق وفجو ر اور دنیا وآخرت میں ذلت ورسوائی کاسبب بن سکتاہے ۔
کوئی بھی چیز اپنی ذات میں بری نہیں ہوتی ہے،بلکہ اصل اس کے استعمال کے اوپر ہے کہ اگر انسان اپنے مال کو اللہ کی رضاکے لیے خرچ کرے تو وہ مال اس کے لیے دنیا اورآخرت کی کھیتی ہے اور اگر اسی مال کو برے راستے میں خرچ کرے تو وہی مال اس کے لیے دنیاا ورآخرت میں عذاب کا سبب ہے،اب انسان خود فیصلہ کرے کہ وہ کون سی کھیتی پسند کرے گا۔
 یہ بات یقینا سب پرواضح ہوچکی ہے کہ ساری چیزوں کا خالق اللہ تبارک وتعالیٰ ہے ،ہر چیز اسی کے حکم سے وجود میں آئی ہے،اس لیے مخلوق کے بجائے خالق سے گہرا رشتہ جوڑیں اور اسی کے حکم کے منتظر رہیں کہ وہ :
’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیر۔‘‘ہے ،یعنی وہ ہر اس چیز پر قادر ہے جو اس کی شان کے لائق ہے، جس کو جس مقدار میں جتنے مال کی ضرورت ہوتی ہے وہ عطا کرتاہے، کس قدر رحیم ہے وہ ذات کہ ہم نا فرمانی کرتے ہیں پھر بھی وہ اپنے رزق کادروازہ ہم پربند نہیں کرتاہے ،بلکہ وہ اپنے شان کریمی کا مظاہرہ کرتاہے اور جہاں اچھے سے اچھے بندے کو رزق دیتا ہے وہیں بدبخت سے بدبخت بندے کو بھی نوازتا رہتاہے۔اس لیے انسان کوسب سے پہلے یہ تصور کرناچاہیے کہ یہ مال جسے وہ حاصل کررہا ہے،وہ اللہ تبارک وتعالی کا مال ہے ،یہ ملک اسی کاملک ہے، یہ کائنات اسی کی کائنات ہے،بلکہ تقریباً اٹھارہ ہزار عالم اسی کے خالق ومالک ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ چنانچہ اب انسان مال اورثروت حاصل کرے تواسے چاہیے کہ وہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے اور ضابطے کے مطابق حاصل کرے ،کیونکہ انسان جو کچھ بھی مال ودولت،سونا چاندی، زراعت ومعیشت اورصنعت وحرفت حاصل کرتاہے تو یہ سبھی اللہ تعالی کی ملکیت ہوتی ہے،جیساکہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:
  ’’ وَاٰتُوہُمْ مِنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ اٰتَاکُمْ ۔‘‘(سور ہ نور،آیت:۳۳)
یعنی لوگوں کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اُس نے تم کو دیا ہے۔
اسی طرح غلط طریقے سے مال حاصل کرنے کی ممانعت کے کے تعلق سے قران پاک میں آیا ہے:
وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاء  إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔‘‘(سورہ نور،آیت:۳۳)
یعنی تمہاری باندیاں پاک دامن رہنا چاہیں تو ان کو بد کاری پر مجبور نہ کرو تاکہ اُس سے دنیاوی زندگی میں تم فائدہ حاصل کرو۔ 
زمانۂ جاہلیت میں لوگ باندیوں کو دوسروں کے حوالے کرکے انھیں برائی پر مجبور کرتے تھے اور ناجائز طریقے سے دولت کماتے تھے،اسے اسلام نے سختی سے روکا ۔
امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں قریش کا ایک شخص قید ہو گیا جو منافقوں کے سردار عبد اللہ ابن ابی سلول کے گھر میں تھا ۔ عبداللہ ابن ابی کی ایک باندی تھی جس کا نام معاذہ تھا ، قیدی اس کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتا تھا اور باندی مسلمان ہونے کے سبب منع کرتی تھی ۔اس پر ابن ابی اس کو مارتا تھا اور اس کام پر مجبور کرتا تھا ،کیونکہ اسے امید تھی کہ وہ باندی اس قیدی سے حاملہ ہو جائے گی اور ابن ابی اس قیدی سے اس بچے کا فدیہ طلب کرے گا ۔
حدیث شریف میں ہے:
 ’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْء ُ مَا أَخَذَ مِنْہُ أَ مِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ‘‘(صحیح بخاری/بَاب مَنْ لَمْ یُبَالِ مِنْ حَیْثُ کَسَبَ الْمَالَ)
ترجمہ:حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی شخص یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے مال کہاں سے لیا ہے ،وہ حلال ذریعہ سے حاصل کیا ہے یا حرام ذریعہ سے ۔
دورحاضر میں اس کی کھلی ہوئی مثال دیکھی جاسکتی ہے ، جس سے بچنا ہر مسلمان کا ایمانی فریضہ ہے ورنہ کل قیامت میں اس عمل کے لیے سخت حساب لیاجائے گا۔
آج دنیا میں تجارت اورکاروبار مال حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے، جب کہ مال حاصل کرنے کا طریقہ ناجائز اورحرام نہ ہو، اورجس میں کوئی دھوکہ ا ورفریب نہ ہو،یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بے روزگاری ،کاہلی اور سستی سے منع فرمایا ہے اور مسلمانوں کو جد و جہد اور محنت ومشقت پر آمادہ کیاہے، تاکہ انسان جو مال کمائے وہ پاک اور حلال مال ہو،اس لیے حکم دیاگیاہے کہ اگر بھلائی اور نفع چاہتے ہوتو زمین میں پھیل کراللہ کی نعمت تلاش کرو ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’فَامْشُوا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِن رِّزْقِہٖ وَإِلَیْْہِ النُّشُور۔‘‘(سورہ ملک ،آیت:۱۵)
یعنی اس کے راستوں پر چلو اور اس کی روزی میں سے کھائو اور اسی کی طرف اٹھنا ہے۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ’’وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِیْ الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّہِ وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ ( سورۂ مزمل ،آیت:۲۰)
یعنی اور کچھ لوگ زمین میں اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سفر کریں گے اور کچھ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ۔
 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال رزق طلب کرنا ہرمسلمان پر واجب ہے۔
 حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا : حلال رزق کا طلب کرنا جہاد ہے۔ 
چنانچہ معلوم ہواکہ مال کمانے کااسلامی طریقہ یہی ہے کہ مال حاصل کرنے کے لیے ایسی صورت اختیارکی جائے جس سے کسی کی حق تلفی نہ ہو،کسی کا دل نہ دکھے ، مناسب نفع لیا جائے اور جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہو جائے اورایساکرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اسلام ، ایمان اوراحسان پر عمل کرے اوریہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان کسی شیخ کامل کی صحبت نہ اختیار کرے ۔  


   

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں