علم ایک نور ہے- اس کی روشنی میں انسان حلال وحرام، جائز وناجائز اور حق وباطل میں تمیز کرتا ہے- علم کا مقصد جس قدر اعلیٰ ہوگا اسی قدر علم بھی اعلی وافضل شمار کیا جائے گا- انسان کی زندگی کا مقصد اعلیٰ، معرفت الٰہی کا حصول ہے- کائنات کے خالق کی طرف جو علم رہ نمائی کرے اس کی ذات وصفات، اسما وافعال کا جو علم پتا بتائے، اس کے احکام سے جو علم آگاہ کرے، وہ علم سب سے اعلیٰ اور افضل قرار پائے گا-
اللہ رب العزت نے فرمایا: ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق لیعبدون کی تفسیرلیعرفون‘‘سے کی گئی ہے- یعنی ہم نے انسان وجنات کو اپنی معرفت حاصل کرنے کے لیے پیدا کیا- معلوم ہوا کہ تخلیق انس وجن کا مقصد معرفت الٰہی کا حصول ہے- اب مخلوق اگر اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرتی ہے تو وہ کامیاب اور بامقصد قرار دی جائے گی، ورنہ ناکام اور بے مقصد کہی جائے گی- حضرت ابن عباس کی اس روایت کی تائید اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل کے سوال کے جواب میں فرمایا- سوال کیا گیا: ماالاحسان؟ تو آپ نے جواباً فرمایا: ان تعبد اللہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ یعنی تمہارا اس طرح عبادت کرنا کہ تم اپنے رب کو دیکھ رہے ہو، یہی تصوف اور احسان ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو کم ازکم دل میں یہ یقین اوردماغ پر یہ تصور چھایاہو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے- یعنی عبادت کرو تو تم کو اپنے خالق ومالک کی معرفت مشاہدہ حاصل ہو ورنہ اس کی معرفت استدلالی یقینی ضرور ہو- یہی احسان اور تصوف ہے- خالق کی یقینی معرفت ہی احسان ہے اور معرفت الٰہی ہی مقصد حیات ہے- دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ احسان تک رسائی ہی مقصد زندگی اور خلاصۂ حیات ہے-
احسان کے بارے میں اس سوال وجواب سے قبل بھی دو سوال اور بھی ہوچکے تھے- پہلاا سوال اسلام کے بارے میں تھا اور دوسرا سوال ایمان کے متعلق تھا- یہ تیسرا سوال جو احسان و تصوف کے بارے میں کیا گیا تھا، اس کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور پھر اپنے صحابہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: جانتے ہو یہ سائل کون تھے؟ یہ حضرت جبرئیل تھے جو تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے- تین سوالات ہوئے اور تینوں کے جوابات آپ نے ارشاد فرمائے اور پھر فرمایا کہ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے- معلوم ہوا کہ اسلام، ایمان اور احسان کے مجموعے کو دین کہا جاتا ہے- نہ صرف اسلام دین کامل ہے اور نہ ایمان دین کامل ہے اور نہ احسان ہی تنہا دین ہے، بلکہ دین نام ہے ان تینوں کے مجموعے کا- اسلام نام ہے ظاہر دین کا اور ایمان نام ہے باطن دین کا اور احسان نام ہے مقصد دین کا- دین کا مقصد اس وقت تک حاصل نہ ہوگا جب تک ظاہر وباطن دونوں یکساں نہ ہوجائیں- یعنی جس طرح انسان اپنی زندگی کے مقصد کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا، جب تک جسم وروح کی توانائی اس کو حاصل نہ ہو، یوں ہی مقصد دین تک اس وقت تک رسائی نہیں ہوسکتی جب تک اسلام وایمان کے مطالبات پورے نہ کرے اور ان دونوں کی خوبیوں کو اپنی زندگی میں نہ اتارے- جب کوئی انسان اسلام وایمان دونوں کے مطالبات کو پورا کرے گا تو اس کے لیے احسان تک رسائی ممکن ہوگی- دوسرے الفاظ میں جب انسان احکام اسلام کا پابند ،قلب سے اللہ کی ربوبیت، رسول کی رسالت اور احکام الٰہی کی تصدیق کرنے والا ہوگااور اپنے ظاہر وباطن میں یکسانیت رکھتا ہوگا تو اس کے لیے احسان یعنی دین کے مغز کا حصول آسان ہوسکتا ہے- ورنہ احسان یعنی مقصد حیات تک رسائی محال کی طرح ہے-
اپنے ظاہر وباطن کو یکساں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر احکام اسلام کے مطابق ہو، حلال وحرام کی تمیز کرنے، جائز وناجائز میں عملی طور پر فرق کرنے اور فرائض وواجبات کی پابندی کرنے والا ہو، اور باطن میں صفائی وتزکیہ رکھتا ہو یعنی بغض وحسد، کینہ وعداوت ، عجب وریا، بدگمانی اور تکبر وتعصب جیسے مہلک وتباہ کن امراض سے اپنے قلب کو پاک رکھے-
یہ سب کو معلوم ہے کہ ظاہر نماز تک اور ہمارے درمیان موجودکاغذ پر مکتوب قرآن تک پہنچنے کے لیے جس طرح شریعت کے بتائے ہوئے مخصوص طریقے پر بدن کے بعض حصوں کو دھونا یعنی وضو کرنا ضروری ہے،اسی طرح کتاب مکنون، روح نماز اور حقیقت عبادت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے طریقت کے مطابق وضو کرنا ضروری ہے اور یہ دل کا وضو ہے- دل کو تمام تر ناپاک خیالات، بری خصلتوں، بغض وحسد، کبر وریا، کینہ وعداوت، بدگمانی وبدظنی اور خود بینی وخود پرستی سے محفوظ رکھنا ضروری ہے-
ظاہری طہارت کا طریقہ اور اس کا علم جس طرح علم شریعت اور عالم شریعت کی صحبت کے بغیر ممکن نہیں، اسی طرح باطنی طہارت کا حصول علم طریقت اور عالم طریقت کی صحبت کے بغیر ممکن نہیں ہے، بلکہ طریقت اور تصوف تو ایک فن ہے اور کوئی بھی فن بغیرفن کار کی صحبت کے کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے؟ اپنے آپ کو جو مرد خیال کرتا ہے اس کو چاہیے کہ مجاز سے ترقی کرکے حقیقت کی طرف آـئے اور رسم عبادت سے عروج کرکے روح عبادت کی طرف پیش قدمی کرے- ظاہر نماز کے ساتھ باطن نماز اور حقیقت نماز تک پہنچنے کی کوشش کرے-
اے گرفتار مجاز، اے بے حیا
چھوڑ کر بغض و حسد، کبر وریا
جا کسی درویش کامل کے حضور
خاک پہ رکھ دے جبین پر غرور
پوچھ پھر اس مرد دانا سے یہ راز
کس طرح ہوتی ہے مستوں کی نماز
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں