جس کی ضرورت تھی
شوکت علی سعیدی
آج کی تیز رفتار دنیا آن واحد میں ایک انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ جس طریقے سے مادی ترقی کی جانب تیزگام ہے اسی طریقے سے عام انسان کی ذہنی و فکری رویوں میں برق رفتاری سے بدلاؤ لارہا ہے۔ یہ کہنا بہت دشوار ہے کہ موجودہ نسلیں آنے والے دنوںمیں کس فکر کی حامل ہوںگی ؟ہمارے دین ومذہب اور ماحول و سماج کے ذمے دار کیسے لوگ ہوں گے؟اس بات کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نئی نسلیں نہ توکسی بند کوٹھری میں رہنا چاہتی ہیں اور نہ ہی ایک خاص قسم کی فکری غذا لینے کے لیے تیار ہیں۔ انھیں ایک کھلی فضا چاہیے تاکہ آ زادانہ طورپر جس چیزکووہ چاہیں حاصل کر سکیں۔
ان حالات میں والدین، گارجین اور قوم کے حساس افراد کابے چین ہونا فطری بات ہے۔ وہ اپنے بچے، احباب اور قوم کو جس ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں اورجیساانھیں بنانا چاہتے ہیں اس میں مشکلیں پیش آرہی ہیں۔حالانکہ ان اسباب کی تلاش اوران کے علاج کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں، لیکن بروقت اس کاکوئی واضح حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی لغزش ضرور ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی محنتوں کا پھل پانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔میرے خیال میںسب سے بڑی لغزش یہ ہو رہی ہے کہ عوام کی اصلاح اور ان کی علمی و فکری ترقی کی باتیں تحریر وتقریر کے ذریعے جو ان تک پہنچانا چاہتے ہیں ،وہ آڈیٹوریم، سیمینارہال اور قیمتی کاغذوں میں ہی قید ہو کر رہ جاتی ہیں۔نہ عوام کی رسائی ان تک ہو پاتی ہے اور نہ ہی ان تک پہنچانے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انداز پیش کش میں بھی عوام کی صلاحیت، دلچسپی اورذوق و ضرورت کا خیال نہیں رکھا جاتاہے۔ اگر حالات کے مطابق، وقت کی اہم ضرورتوںکوسمجھتے ہوئے اور ضرورت مندوںکا لحاظ کر کے، کوئی بات پیش کی جائے تو اسے قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
ان حالات میں والدین، گارجین اور قوم کے حساس افراد کابے چین ہونا فطری بات ہے۔ وہ اپنے بچے، احباب اور قوم کو جس ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں اورجیساانھیں بنانا چاہتے ہیں اس میں مشکلیں پیش آرہی ہیں۔حالانکہ ان اسباب کی تلاش اوران کے علاج کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں، لیکن بروقت اس کاکوئی واضح حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی لغزش ضرور ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی محنتوں کا پھل پانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔میرے خیال میںسب سے بڑی لغزش یہ ہو رہی ہے کہ عوام کی اصلاح اور ان کی علمی و فکری ترقی کی باتیں تحریر وتقریر کے ذریعے جو ان تک پہنچانا چاہتے ہیں ،وہ آڈیٹوریم، سیمینارہال اور قیمتی کاغذوں میں ہی قید ہو کر رہ جاتی ہیں۔نہ عوام کی رسائی ان تک ہو پاتی ہے اور نہ ہی ان تک پہنچانے کی کوئی کوشش کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انداز پیش کش میں بھی عوام کی صلاحیت، دلچسپی اورذوق و ضرورت کا خیال نہیں رکھا جاتاہے۔ اگر حالات کے مطابق، وقت کی اہم ضرورتوںکوسمجھتے ہوئے اور ضرورت مندوںکا لحاظ کر کے، کوئی بات پیش کی جائے تو اسے قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
چنانچہ ’شاہ صفی اکیڈمی ‘الہ آباد سے نکلنے والا علمی ا ور تحقیقی سالنامہ’’ الاحسان‘‘ کی مثالی مقبولیت کے بعد یہ خیال بار بار ستارہا تھا کہ یہ رسالہ علما اور محققین کی علمی و فکری پیاس بجھانے کے لیے توکافی ہے لیکن عوام اور کم پڑھے لکھے طبقوں کے لیے نہیں،جب کہ ان کی مذہبی اور ذہنی تربیت کی طرف توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔اس لیے ایک ایسے ماہنامے کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے عام لوگوں کی ذہنی و فکری اورمذہبی وروحانی غذا فراہم کی جاسکے۔
انھیں ضرورتوں کو سامنے رکھ کر داعیٔ اسلام ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہ العالی کی خدمت میں مجھ جیسے کم علم نے یہ عریضہ پیش کیا کہ ایک ایسے ماہنامے کی اشد ضرورت ہے جس کے قاری عام مسلمان ہوں ۔ شیخ طریقت مدظلہ العالی قوم کے نبض شناس ہیں۔ ان کی نظروں میں اس کی ضرورت واہمیت پہلے سے ہی اجاگر تھی بس انتظار اس کا تھا کہ کوئی اس کام کی ذمے داری قبول کرے۔میرے اس عریضے پرانھوں نے نہ صرف مسرت کا اظہارکیا بلکہ کچھ اہم مشمولات کی رہنمائی کرتے ہوئے کئی بنیادی نکات بھی بتائے اور اس بات کی تاکید فرمائی کہ زبان عام فہم،سادہ اور آسان ہو۔ اسلوب بھی ایسا ہو کہ بڑی سے بڑی بات بھی عام قاری آسانی سے سمجھ سکے اور انھیں یہ محسوس ہو کہ یہ مجھ جیسوں کے لیے ہی تحریر کی گئی ہے۔
رسالے کے نام کے سلسلے میں بات آئی تو ایک نام جوبرسوں سے ناچیز کے خیال میں گردش کر رہا تھا،دفعتاً شیخ طریقت دامت برکاتہم العالیہ کی بارگاہ میں عرض کر دیا۔ وہ نام تھا ’’ خضر راہ‘‘ شیخ طریقت نے برجستہ فرمایا کہ بہت اچھا نام ہے ،پھر بھی احباب کے مشوروں سے کوئی نام آئے تو دیکھا جائے لیکن میرے لیے یہ مسرت کاباعث رہا کہ اسی نام کوتمام احباب نے پسند فرمایا۔
یہ قول مشہور ہے کہ’’ کہناہے بہت آساں کرناہے بڑامشکل۔‘‘ چنانچہ میں نے کہہ تودیااور کرنے کا حکم بھی صادر ہو گیا۔ اب میرے اوپر امتحان کی گھڑی آگئی اورپنڈولیم کانٹے کی طرح ٹک ٹک کرتے ہوئے دل کو دھڑکانے لگا،لیکن شیخ کے حکم اور دعاؤں نے میری حوصلہ افزائی کی۔میں نے اس کے لیے جدو جہد شروع کر دی اورنتیجہ کے طور پر ’’خضر راہ‘‘سامنے ہے۔
واضح رہے کہ تمام مشمولات کو تعلیمی اور تبلیغی مزاج کے پیش نظر آپ تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث، واقعات و افکار اور معلومات سے متعلق کسی بھی طرح کا سوال یا الجھن ہو تو ادارہ سے رابطہ ضرور کریں۔ ان شاء اللہ تشفی بخش جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
آخر میں قلم کاروں سے گذارش ہے کہ اس رسالے کے مزاج کو دیکھتے ہوئے مضامین ارسال کریں۔ ان شاء اللہ انھیں شامل اشاعت کیا جائے گا۔قارئین سے بھی گذارش ہے کہ اس کوشش کواپنی پسند اور ناپسند کے ساتھ مخلصانہ مشوروں سے فون، خط یا ای میل کے ذریعے ضرور نوازیں تاکہ اسے آپ کے لیے بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔
انھیں ضرورتوں کو سامنے رکھ کر داعیٔ اسلام ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہ العالی کی خدمت میں مجھ جیسے کم علم نے یہ عریضہ پیش کیا کہ ایک ایسے ماہنامے کی اشد ضرورت ہے جس کے قاری عام مسلمان ہوں ۔ شیخ طریقت مدظلہ العالی قوم کے نبض شناس ہیں۔ ان کی نظروں میں اس کی ضرورت واہمیت پہلے سے ہی اجاگر تھی بس انتظار اس کا تھا کہ کوئی اس کام کی ذمے داری قبول کرے۔میرے اس عریضے پرانھوں نے نہ صرف مسرت کا اظہارکیا بلکہ کچھ اہم مشمولات کی رہنمائی کرتے ہوئے کئی بنیادی نکات بھی بتائے اور اس بات کی تاکید فرمائی کہ زبان عام فہم،سادہ اور آسان ہو۔ اسلوب بھی ایسا ہو کہ بڑی سے بڑی بات بھی عام قاری آسانی سے سمجھ سکے اور انھیں یہ محسوس ہو کہ یہ مجھ جیسوں کے لیے ہی تحریر کی گئی ہے۔
رسالے کے نام کے سلسلے میں بات آئی تو ایک نام جوبرسوں سے ناچیز کے خیال میں گردش کر رہا تھا،دفعتاً شیخ طریقت دامت برکاتہم العالیہ کی بارگاہ میں عرض کر دیا۔ وہ نام تھا ’’ خضر راہ‘‘ شیخ طریقت نے برجستہ فرمایا کہ بہت اچھا نام ہے ،پھر بھی احباب کے مشوروں سے کوئی نام آئے تو دیکھا جائے لیکن میرے لیے یہ مسرت کاباعث رہا کہ اسی نام کوتمام احباب نے پسند فرمایا۔
یہ قول مشہور ہے کہ’’ کہناہے بہت آساں کرناہے بڑامشکل۔‘‘ چنانچہ میں نے کہہ تودیااور کرنے کا حکم بھی صادر ہو گیا۔ اب میرے اوپر امتحان کی گھڑی آگئی اورپنڈولیم کانٹے کی طرح ٹک ٹک کرتے ہوئے دل کو دھڑکانے لگا،لیکن شیخ کے حکم اور دعاؤں نے میری حوصلہ افزائی کی۔میں نے اس کے لیے جدو جہد شروع کر دی اورنتیجہ کے طور پر ’’خضر راہ‘‘سامنے ہے۔
Related Article
اس پہلے شمارے میں کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جو عام رسائل میں مل جاتی ہیں لیکن کچھ نئی چیزیں یقیناً ایسی ہیں جو میری نظر سے اب تک نہیں گزری ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا تھاکہ اس میں عوام کی ضرورت اور ان کی سمجھ وصلاحیت کا خاص لحاظ رکھا گیاہے اوراسی خصوصیت وانفرادیت کوآئندہ بھی برقرار رکھنے کی کوشش ہو گی۔ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کچھ ایسے طلبہ کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں اورآئندہ بھی کیے جائیں گے جو درس نظامیہ کے ابتدائی درجوں میں زیرتعلیم ہیں،تاکہ ان کی فکری تربیت کے ساتھ، ان کی تحریری صلاحیت بھی نکھرسکے۔واضح رہے کہ تمام مشمولات کو تعلیمی اور تبلیغی مزاج کے پیش نظر آپ تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث، واقعات و افکار اور معلومات سے متعلق کسی بھی طرح کا سوال یا الجھن ہو تو ادارہ سے رابطہ ضرور کریں۔ ان شاء اللہ تشفی بخش جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
آخر میں قلم کاروں سے گذارش ہے کہ اس رسالے کے مزاج کو دیکھتے ہوئے مضامین ارسال کریں۔ ان شاء اللہ انھیں شامل اشاعت کیا جائے گا۔قارئین سے بھی گذارش ہے کہ اس کوشش کواپنی پسند اور ناپسند کے ساتھ مخلصانہ مشوروں سے فون، خط یا ای میل کے ذریعے ضرور نوازیں تاکہ اسے آپ کے لیے بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔
ہم نے جو شمع جلائی ہے، نہ بجھنے پائے
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں