Rooh e Ibadat

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0
 روحِ عبادت
شوکت علی سعیدی

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔
توحیدکی شہادت، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ۔
ان پانچوں میں ایک کی حیثیت ایسی ہے کہ اس کے بغیر دوسرے چار کا ادا کرنا نہ کرنا برابر ہے۔یعنی توحید، اسلام کی ایک ایسی بنیاد ہے جس کے بغیر سارا عمل بے کار ہے۔ توحید کا مطلب ہے اللہ عز و جل کو ایک ماننا اور اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔
جب ایک بندے کے اندر توحید کی بنیاد پڑتی ہے تب جاکر دوسری بنیادیں قائم ہوتی ہیں۔
اسی لیے حقیقی داعیان اسلام نے پہلے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی تبلیغ نہیں کی بلکہ سب سے پہلے بندوں کے دلوں میں توحید کو راسخ کیا۔جب تک دل و دماغ میں توحید رچ بس نہ جائے اس وقت تک یہ نماز، یہ روزہ، یہ حج اور یہ زکوۃ عبادت نہیں ہو سکتے۔ 
رمضان المبارک عبادت کا مہینہ ہے۔ ہمیں غور کرنا ہے کہ جو عبادتیں نماز، روزہ اور زکوۃ کی شکل میں ادا کی جارہی ہیں وہ عبادت میں شامل ہو رہی ہیں یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ توحید تو ابھی ہمارے دل میں نہیں اتراہے اور دنیا کے دکھاوے کے لیے یا عام عادات و معمولات کے طریقے پر ان عبادتوں کو کر رہے ہیں جس سے حقیقی عبادت کا نہ لطف مل رہا ہے اور نہ ہی ہمارے اعمال ثواب میں شامل ہو رہے ہیں۔
آئیے اس رمضان کے مہینے میں حقیقی عبادت کا لطف لینا چاہتے ہیں تو توحید کو عقل سلیم کے ذریعے سمجھیں جو علم کے راستے سے ہم تک پہنچتا ہے اور اس توحید کو دل میں اتاریں جو صاحب دل کے ذریعے سے ہم تک پہنچتا ہے۔ اے میرے بھائی! اہل علم تو ہر جگہ مل جائیں گے اور اگر نہ مل پائیں تو ان کی باتیں کتابوں میں مل جائیں گی اسے پڑھ کر توحیدتو سمجھ لیں گے، لیکن توحید کو دل میں اتارنے کے لیے صاحب دل کی کتابیں تو مل جاتی ہیں۔ صاحب دل کہاں ملیں گے؟ ان کی پہچان کیسے ہوگی؟ صاحب دل تو ہمیں ہر جگہ نہیں دِکھتے کہ ان سے جا کر استفادہ کرسکیں ، ایسی حالت میں ہم کیا کریں؟
اے میرے بھائی !پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے، وہ اپنے نور کے ذریعے سے ہدایت دیتا ہے۔ جب کوئی بندہ اس کی طلب میں نکلتا ہے توکوئی خضر اسے راستے میں ملتا ہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے کبھی طلب پیدا نہیں کی اور یہ کہہ دیا کہ اب اہل دل یعنی اللہ والے اس دنیا میں ہیں ہی نہیں۔ افسوس ہے ایسے نادانوں پر، کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ خیال دین سے ٹکرا تو نہیں رہا ہے کہ اب اللہ والے نہیں ہیں۔ جان لو کہ قیامت تک اللہ والے رہیں گے ۔ان کی پہچان کے لیے پہلے قلب کی صفائی کی ضرورت ہے اور ان کو پانے کے لیے حقیقی طلب کا پیدا ہونا ضروری ہے۔
مگو ارباب دل رفتند و شہر عشق خالی شد 
جہاں پُر شمس تبریزست مردے کو چوں مولانا
یہ نہ کہو کہ اہل دل رخصت ہو گئے اور شہر عشق ویران ہو گیا۔دنیا شمس تبریز سے بھری ہوئی ہے مولانا روم جیسا کوئی طالب کہا ں ہے۔
اے میرے بھائی!اس پُر فتن دور میں ظاہری علوم کی کمی نہیں ہے۔ لوگوں نے کیسے کیسے علوم حاصل کیے، زمین کی پستی کے علوم سے لے کر آسمان کی بلندی کے علوم حاصل کیے۔زمین کے نیچے سیر کر رہے ہیں تو آسمان کے اوپر بھی سیر کرنے کے طریقے ایجاد کر چکے ہیں، لیکن ان سب کی حقیقت پر کبھی غور نہیں کرتے یعنی علم حقیقی کو حاصل کرنے میں وہ جدو جہد نہ کر سکے۔ ان سے پوچھا جائے کہ اے علوم کے ماہرو! کبھی تم نے اس پر بھی ریسرچ کیا کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جانا ہے؟ اگر اس کی تحقیق کر لیے ہوتے تو ظاہری علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ ان ساری چیزوں کی حقیقتیں بھی روشن ہو جاتیں۔ 
مولوی ہستی و آگاہ نیستی
از کجا و تا کجا و کیستی
مولا والے کہلاتے ہو، اور اس سے آگاہ نہیں ہو کہ کہاں سے آئے؟کہاں جانا ہے ؟اور کون ہو؟
لیکن یاد رکھو ! یہ ریسرچ کسی لیب میں بیٹھ کر یا لائبریری میں نہیں ہوگی بلکہ کسی ایسے شخص کی تلاش کرنی ہوگی جو ان حقیقتوں سے واقف ہو،جب تمھیں ایسا شخص مل جائے گا تو سکنڈوں میں تمھیں تمھاری حقیقت سے آشنا کرا دے گااور پھر تم دنیا کی ساری حقیقتوں سے واقف ہو جاؤگے۔دنیا مخلوق ہے، جب تک مخلوق کی حقیقت کو نہیں سمجھا جائے خالق کی حقیقی معرفت روشن نہیں ہو سکتی۔جس نے مخلوق کی حقیقت کو سمجھا گویا اس نے خالق کی معرفت حاصل کر لی۔آپ کہیں گے کہ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو بھائی! آسمان زمین، پہاڑ، چاند، ستاروں اور جانوروںمیں غور کرنے سے اور اس حقیقت تک رسائی حاصل کرنے سے انسان اللہ کو کیسے جان لے گا ،اس کی معرفت کیسے حاصل کر لے گا تو میں کہوں گا بھائی! ایسا ہی ہے۔کیا تم کسی کے گھر جاتے ہو اور اس کے گھر کی سجاوٹ اورطرح طرح کے میوہ جات اور انواع و اقسام کے اشیائِ خوردنی سے اندازہ نہیں کر لیتے کہ اس گھر میں رہنے والوں کا لیبل کیا ہے۔ ایسا ہی یہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی ہے، یہ پوری سجاوٹ اسی حکیم مطلق کی ہے۔آسمان کی حقیقت یعنی اس کی لمبائی اس کی چوڑائی اور اس کا کسی ستون پر کھڑا نہ ہونا کیا ہمیں یہ نہیں بتائے گا کہ وہ کیسی عظمت والا ہے جس نے اسے بنایا۔ زمین کی خصوصیات، اس کی خشکی اور زرخیزی کو دیکھ کر کیا اس کی کبریائی نہ بیان ہوگی جس نے کہ اسے بنایا، ضرور ہوگی۔ یہ سب آیتیں ہیںیعنی نشانیاں ہیں اللہ کی ربوبیت پر ۔کیا کبھی ہم نے آیت کے طور پر اس میں غور کیا ؟ جبکہ اللہ بندوں کو غور کرنے کا حکم دیتا ہے کہ بندہ جب غور کرتا ہے یعنی فکر کرتا ہے تو فطری طور پر ذکر پیدا ہوتا ہے اور جس کے دل میں اللہ کا ذکر پیدا ہو گیا گویا کہ اس نے مردار دنیا کو خیر آباد کہہ دیا اور اس نے اللہ کو پہچان لیا:
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

یہ رنگ گل و شبنم مطلب سے نہیں خالی
اک پردہ لیے کوئی دیتا ہے پیام اپنا
 یہ نماز، یہ روزے، یہ حج اور یہ زکوۃ صرف اسی ذکر کے لیے ہے یعنی اللہ کو یاد کرنے کے لیے ہے جو مختلف شکلوں میں ایک قانون کی شکل میں بندوں پر فرض کیا گیا ہے۔ بندے کے دل میں جب یہ حقیقت رچ بس جاتی ہے کہ فاعل حقیقی صرف وہی ایک ذات ہے تو پھر وہ اپنے ہر حرکات وسکنات کو اسی کی جانب سے سمجھتا ہے اور اس طرح وہ خود کو فراموش کر دیتا ہے اور برملا یہ کہتا ہے:
سعید اللہ ہے اب میں کہاں ہوں
میرا نام و نشاں وہم و گماں ہے
اس معرفت کے حصول کے بعد ہی ہماری عبادت، عبادت ہوتی ہے۔ پھر ہم اس حدیث کے مطابق ہو جاتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) احسان کیاہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم عبادت اس طرح کرو گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رہے کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔
ایمان کا اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا۔ اب ذرا سوچیں کہ جو شخص اللہ کو دیکھ رہا ہو اس کی عبادت کیسی ہوگی، کیا اس عبادت میں دکھاوا پایا جائے گا، کیا وہ عبادت ایسی ہوگی جو مقبول نہ ہو، کیا وہ عبادت جسم کی بیماری دور کرنے کے لیے یا ورزش کے طور پر ہوگی،نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔وہ عبادت تو خالصتاً اللہ کے لیے ہوگی۔ یہی وہ عبادت ہے جو مطلوب ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم یہ تصور رہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور خاص کر نماز میں یہ خیال آئے کہ وہ دیکھ رہاہے ، زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت خیال آئے کہ وہ دیکھ رہا ہے، روزے کی حالت میں خیال آئے کہ وہ دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں کہ وہ صرف ہماری ظاہری نقل و حرکت کو ہی دیکھ رہا ہے بلکہ یہ یقین رہے کہ جو خیال دل میں گزر رہا ہے اللہ اسے بھی دیکھ رہاہے ۔
اے میرے بھائی! زندگی محدود ہے، اللہ نے رمضان جیسا مبارک و مسعود مہینہ عطا کیا آئیے آج ہی سے یہ پریکٹس شروع کر دیں کہ اللہ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہا۔ امکان کی حد تک نہیں بلکہ یقین کی حد تک ہم یہ خیال جمائیں کہ اس ایک مہینے کی پریکٹس کے بعد ہماری حالت یہ ہو جائے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، اللہ بندوں کے گمان کے قریب ہوتاہے۔ نیکی میں جلدی کریں، اس دنیا کی حقیقت کو پہچانیں جو بندوں کو اپنے پیدا کرنے والے سے غافل کر دیتی ہے۔ ہوشیار بنیں !سمجھدار بنیں !اور اپنے پیدا کرنے والے کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جدو جہد شروع کردیں، اسی میں کامیابی و کامرانی ہے۔


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں