مسائل کا حل کیا ہے؟
شوکت علی سعیدی
افراد کے اجتماع سے ہی معاشرے کا قیام عمل میں آتاہے۔ افراد کے ذہنی رویے سے ایک معاشرے کا رنگ و روپ اور تہذیب و تمدن دوسرے معاشرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ خوش حال ہوتا ہے تو کوئی مفلوک الحال، کوئی معاشرہ دوسروں کے لیے لائق تقلید ہوتا ہے تو کوئی لائق عبرت۔ معاشرے کے یہ مختلف رنگ افراد کے رویے کے اختلاف کی وجہ سے ہیں۔
ہم جب کبھی کسی بگڑے معاشرے کی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں تو ہماری توجہ افراد کے بجائے معاشرے پر ہوتی ہے یعنی اجتماعیت پر جبکہ اجتماعی طور پراصلاح نہیں کی جا سکتی۔ اصلاح جب بھی ہوگی فرداً فرداً ہوگی اور انھیں اصلاح شدہ افراد سے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ہوگی۔اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایک فرد کی اصلاح کی جائے۔اگر چند افراد کی بھی اصلاح ہو گئی تو ایک چھوٹا سا مثالی معاشرہ بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔
فرد کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ مصلح خود ہر طرح کے فسادات سے پاک و صاف ہو،کیونکہ یہ اصول ہے کہ سویا ہوا انسان سوئے ہوئے کو نہیں جگا سکتا ہے، پہلے اسے خود بیدار ہونا ہوگا تبھی وہ دوسرے کو بیدار کر سکتا ہے۔اگر آج یہ کہا جائے کہ مصلح افراد ناپید ہیں اور کوئی ایسا ہے ہی نہیں کہ وہ دوسروں کی اصلاح کر سکے تو یہ ایک غلط خیال ہے،اس طرح کے خیالات اسی وقت ذہن میں آتے ہیں جب ہم اپنی بیماری سے غافل ہوتے ہیں اور خود کو اصلاح کے قابل نہیں سمجھتے ، کیونکہ اگر اصلاح کی فکر ہو اور بیماری کی شناخت ہو جائے تو اس کا علاج ڈھونڈنا آسان ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جس بیماری کا علاج جہاںممکن ہے اس تک ہم رسائی حاصل نہیں کرتے ۔کوئی شخص سردی اور بخار کے علاج کے لیے کسی سرجن کے پاس نہیں جاتا اور نہ ہی حادثاتی کیس میں کسی فزیشین کے پاس جاتاہے، کیونکہ اسے اپنی بیماری کا علم ہے اور اسے معلوم ہے کہ سردی بخار کا علاج کون کرے گا اور ہاتھ پاؤں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور زخموں کو درست کون کرے گا۔ اگر ڈھیر ساری بیماریاں پائی جائیں تو اسے یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ اسے کسی بڑے ہاسپٹل میں چند دنوں کے لیے ایڈمٹ رہ کر مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر وں کے زیر علاج رہنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ پتہ ہو جائے کہ ہماری بیماری کیا ہے؟علم کی کمی ہے یاعمل کی ، غربت و افلاس ہے یااچھے پڑوسی کا نہ ہونا،آپسی اتحاد کاخاتمہ ہے یا بغض و حسد، اور کبر جیسی باطنی بیماریاں تو ان بیماریوں کے علاج کے لیے وہ خود تیار اور مستعد ہو جائے گا۔ اگر ان میں سے اسے کوئی ایک مرض لاحق ہو تو اسے ایسے طبیب کی تلاش ہوگی جو اس بیماری کو دور کر دے اور اگر ڈھیر ساری بیماریاں ہوں تواسے ہاسپٹلائز ہونے کی ضرورت پڑے گی۔ طبیب حاذق اس کا علاج ترتیب وار کرے گا تبھی اس کی ساری بیماریاں دور ہو سکیں گی۔اس طور پراگر کہا جائے کہ آج ہر سوسائٹی کو ایک کامل و مکمل صوفی، ایک فقیہ، ایک محدث کی ضرورت ہے جو اپنے تمام آلات و وسائل کے ساتھ ایک چھت کے نیچے جمع ہوں اگر کوئی بیماران بیماریوں کے ساتھ آئے تو اس کا مکمل طورپر علاج کیا جاسکے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اگر ایسا کیاگیا تو میرا یقین یہ کہتا ہے کہ سوسائٹی کو صحت مند بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ بصورت دیگر بیمار ایک ایک بیماری کا علاج کرانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرے گا اور ایک بیماری ٹھیک ہونے ہی والی ہوگی کہ دوسری بیماری انفیکشن کی طرح در آئے گی۔
اصلاح کے عمل میں یہ بات بھی دھیان رکھنے کی ہے کہ جس فساد کی اصلاح مقصود ہو وہ جس طرح کے مصلح کے ذریعے اصلاح ہو جائے کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہاسپٹل کا ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہی اس کا علاج کرے تبھی اصلاح ہوگی۔یہاں پر یہ خیال آیا کہ اگر نماز کی پابندی میں کوتاہی ہو رہی ہے تو کسی پابند نماز شخص کی صحبت اختیار کریں تو نماز ترک ہونے کی بیماری دور ہو سکتی ہے۔ اگر دنیا کی جاہ و طلب میں گرفتار ہیں تو کسی دنیا بیزار اور دین دوست کی صحبت اختیار کریں تو یہ بیماری دور ہو سکتی ہے۔ اسی طرح بغض و کینہ اورحسد جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں تو کسی صاف و شفاف اہل دل کی صحبت میں رہیں تو یہ بیماریاں دور ہو سکتی ہیں اور اگر بیماری کی شناخت نہ ہو پا رہی ہو کہ کس نوعیت کی بیماری ہے تو اپنے آپ کو ہاسپٹلائز کر دیں یعنی ایسے ادارے میں جائیں جہاں مختلف طرح کے باطنی امراض کو دور کرنے والے ماہرین موجود ہوں۔ وہاں جا کر اپنے آپ کو ان کے حوالے کردیں وہ خود اپنے آلات و وسائل سے اندازہ کر لیں گے کہ کون کون سی بیماریاں ہیں اور ان سب کا علاج کیا ہے۔
جس طرح ایک جسمانی مرض میں مبتلا شخص ڈاکٹر کی ہر ہدایت اور ڈاکٹر کے ہرعمل کوبسر و چشم قبول کرتا ہے ۔کڑوی دوائیں پابندیٔ وقت کے ساتھ لیتاہے،یہاں تک کہ ڈاکٹر زخمی اعضا کی صفائی کے دوران اس کے ارد گرد کے اچھے گوشت کو بھی کاٹتا ہے تو وہ کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح جب ہم اپنے باطنی امراض کے علاج کے لیے کسی طبیب حاذق کے پاس جائیں گے تو وہاں اپنی کچھ بھی نہ چلے گی وہ جو بھی نسخہ تجویز کرے گا اور جس طرح کا سلوک ہم سے کرے گا اسے بسر وچشم تسلیم کرنا ہوگا تبھی ہماری بیماریاں دور ہو سکتی ہیں، اگر اس کے نسخے پر عمل کرنے میں اپنی خواہش کی پیروی کی تو مرض ٹھیک ہونا تو دور کی بات ہے ممکن ہے کہ اس کا رِی ایکشن بھی ہو جائے اور جس بیماری کے علاج کے لیے آئے تھے اس سے کہیں بڑی بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔
اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ظاہری و باطنی بیماریوں سے محفوظ رکھے اوراگر بیماری لاحق ہو جائے تو اچھے طبیب تک رسائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خوابِ غفلت سے اٹھ اے مردِ خدا
تاکہ حاصل ہو تجھے فضل خدا
جس نے غفلت میں گزاری زندگی
آخرش ہوگی اسے افسردگی
ماسوا سے اور امید وفا
لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں