Mah e Shaban Aur Shab e Barat

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

ماہ شعبان اور شب برأت 
جہانگیر حسن

اﷲ تعالیٰ کی فیاضی کا اندازہ کون کر سکتا ہے کہ مسلمان گناہ پہ گناہ کیے جارہا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ مختلف بہانوں سے بندے کو اپنے قریب بلاتا ہے اور مختلف نعمتوں سے نوازتا ہے۔ان ہی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ’’شعبان‘‘کا مہینہ بھی ہے جو ہم مسلمانوں کوملی ہے ،یہ کافی خیر و برکت اور نہایت عظمت والا مہینہ ہے، اس ماہ کی بابت حضور سرور کائنات علیہ ا لصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’شَعْبَانُ شَہْرِی وَرَمَضَان شَہْرُ اللّٰہِ، شَعْبَانُ الْمُطَھِّرُوَرمضَانُ الْمُکَفِّرُ۔‘‘(المقاصدللسخاوی،ص:۲۶۰، ابن عساکر نے تاریخ میں اور دیلمی نے فردوس میں نقل کیا ہے  ضعیف ہے۔)
 شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ، شعبان پاک کرنے والاہے اور رمضان گناہوں کو مٹانے والاہے۔
یہ وہ مقدس مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند اور محبوب ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’کَانَ أَحَبَّ الشُّہُورِ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَصُومَہُ شَعْبَانُ ثُمَّ یَصِلُہُ بِرَمَضَان۔‘‘(ابوداؤد،ج:۲،ص:۲۹۹-نسائی،ج:۴،ص:۱۹۹)
یعنی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ شعبان کا روزہ رکھنا پسندتھاپھر اپنے اس روزے کو رمضان سے ملادینا۔
’’عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ الْغَازِ أَنَّہُ سَأَلَ عَائِشَۃَ عَنْ صِیَامِ رَسُول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کَانَ یَصُومُ شَعْبَانَ کُلَّہُ حَتَّی یَصِلَہُ بِرَمَضَانَ۔‘‘حدیث صحیح(سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۵۲۸)
حضرت ربیعہ بن غازرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوںنے فرمایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملادیتے تھے۔ 
یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں تمام بندوں کے رزق کی تعیین ہوتی ہے، ان کے اعمال سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں، ان پر راحت و سکون اور مصائب و آلام کی آمد کا پروگرام بنتا ہے اور موت و حیات کی میعاد مقرر ہوتی ہے۔ لہذا تمام مسلمان اس ماہ مبارک میں خدا کے حضور لو لگائیں ،اچھے اور نیک کام کریں، خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوںنے عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!
 ’’ لَمْ أَرَکَ تَصُومُ شَہْرًا مِنْ الشُّہُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ قَالَ ذَلِکَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَہُوَ شَہْرٌ تُرْفَعُ فِیہِ الْأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِم۔‘‘ حدیث  حسن(سنن نسائی،ج:۴،ص:۲۰۱) 
یعنی میں نے آپ کو جتنااس مہینے میںروزہ رکھتے ہوئے دیکھاہے اتناکسی اور مہینے کا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا،  آپ نے فرمایا:کون سا مہینہ؟میں نے کہا:شعبان، آپ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیںاور یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں تومجھے یہ بات پسندہے کہ جب میرا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتومیں روزہ سے رہوں۔
حدیث شریف میں ہے کہ:’’عَنْ عَلِی بْنِ اَبِی طَالِب رَضِی اللّٰہ عنہ قاَلَ:قالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ : اِذَا کَانَتْ لَیلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَقُومُوا لَیلَہا وَصُومُوا نَہارَہا ، فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ فِیْہا لِغُرُوبِ الشَّمُسِ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیا ، فَیَقُولُ:اَلا مُسْتَغُفِرٌ فَاَغُفِرْ لَہٗ ؟ اَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَاَرْزُقْہٗ ؟ اَلا مُبْتَلِیٌ فَاَعَافِیْہِ؟ اَلا کَذَا،حَتّٰی یَطْلِعُ الْفَجْرِ۔‘‘ حدیث ضعیف(ابن ماجہ،ج:ا،ص:۴۴۴)
یعنی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی آدھی رات ہوجائے تواس رات میں قیام کرو اوردن میں روزہ رکھو،کیونکہ اللہ تعالیٰ سورج ڈوبنے کے وقت آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتاہے، ہے کوئی بخشش مانگنے والا کہ میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی روزی مانگنے والا کہ اسے روزی عطا کروں ،ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اس کو عافیت دوں اور اس قسم کی ندائیں صبح ہونے تک آتی رہتی ہیں:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں
مزید روایت ہے کہ:’’عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَخَرَجْتُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِیعِ رَافِعٌ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَاء ِ فَقَالَ لِی أَکُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللَّہُ عَلَیْکِ وَرَسُولُہُ قَالَتْ قُلْتُ ظَنَنْتُأَنَّکَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاء ِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ۔‘‘ حدیث ضعیف   ( ابن ماجہ،ج:۱،ص:۴۴۴)
یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو نہیں پایاتو انھیں تلاش کرنے کی غرض سے باہرنکلی،دیکھاتوآپ جنت البقیع میں تھے اوراپناسر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کرآپ نے فرمایا :
کیا تجھے یہ خوف تھا کہ کہیں اللہ اور اس کا رسول تجھ سے غضبناک نہ ہوجائیں،وہ بیان فرماتی ہیں:میں نے کہا مجھے گمان ہوا کہ آپ کہیں دوسری بیویوںکے پاس تشریف لے گئے ہوں تو فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات میں آسمان دنیاپر تجلی فرماتاہے اور بنی کلب کی بکریوں کی تعدادسے زیادہ اپنے بندوںکی بخشش کرتا ہے۔
 بنی کلب کی بکریوں کے بال کا تذکرہ کثرت تعداد بتانے کے لیے آیا ہے، کیونکہ عرب میں یہ قبیلہ بکریاںپالنے کے اعتبار سے تمام قبائل پر فوقیت رکھتا تھا اور جس طرح ان کی بکریوں کے بال کا شمار مشکل تھا بعینہ مغفرت شدہ بندوں کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے۔
اس لیے چاہیے کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے توہر مسلمان اس میں قیام ،یعنی رات میں نوافل پڑھے اور دن کا روزہ رکھے ،کیونکہ جو شخص شب برأت میں عبادت کے لیے بیدار رہتا ہے اس کا دل کبھی مردہ نہیں ہوتااورانسان تو انسان چرندو پرند بھی اس رات کی عبادت سے غافل نہیں ہوتے اور خدا کی یاد اور اس کی عبادت میں ہمہ تن گوش منہمک رہتے ہیں۔یہاںتک کہ چرندوپرند اور سمندری مچھلیاں بھی روزہ رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل میں لگی رہتی ہیں۔لیکن چند بدبخت ایسے بھی ہیں جن کی مغفرت اس مقدس رات میں نہیں ہوتی ہے جب تک کہ وہ اپنے گناہو ں سے توبہ نہ کرلے:
’’عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَنْزِلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاء ِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِعِبَادِہِ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لأَخِیہِ.‘‘حسن صحیح(مسندالبزاز،ج:۱،ص:۳۰)
ترجمہ:حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کی پندرہویں رات آتی ہے تواللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اورمشرک اور اپنے بھائیوں سے کینہ رکھنے والوں کے سوا تمام بندوں کی مغفرت فرمادیتاہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
’’عَنْ مُعَاذِ بن جَبَلٍ، عَن ِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"یَطَّلِعُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی خَلْقِہِ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیعِ خَلْقِہِ إِلا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ۔‘‘حدیث حسن
(ابن ماجہ،ج:۱،ص:۴۴۵)
ترجمہ:حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنی خاص تجلی فرماتا ہے اورمشرک اور کینہ پرورکے سوا تمام مخلوقات کی مغفرت کرتاہے۔
اولیائے کرام اورمشائخ عظام نے بھی شب برأت کے موقع پر نوافل کااہتمام فرمایاہے،جیساکہ ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ: جوشخص پندرہویںشعبان کی رات میں سو رکعت نفل نماز پڑھے گااور اس میںہزار بار ’’قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔‘‘ ہررکعت میں دس مرتبہ کے حساب سے پڑھے تواللہ تعالیٰ اس کی موت سے پہلے اس کے پاس سو فرشتوں کو بھیجے گا، تیس فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیں گے اور تیس فرشتے اس کو جہنم سے بے خوفی کی خوشخبری دیں گے اور تیس فرشتے اس کودنیاوی آفتوںاورگناہوں سے بچاتے رہیں گے اور باقی دس اس کو شیطان کے مکر سے بچاتے رہیں گے،اورمحمدبن علی کی روایت میں ہے کہ اس کو اس کے دشمنوں کے مکروفریب سے محفوظ رکھیں گے۔(اخبارمکہ للفاکہانی،ج:۵،ص:۲۷) 
خواجہ حسن علاسجزی علیہ الرحمہ نے فوائدالفواد،جلداول کی ۳۷ویں مجلس میں تحریر فرمایاہے کہ:
’’پھریہ ذکرآیاکہ کیانفل نمازوں کاجماعت سے پڑھنا کہیں آیاہے؟فرمایاکہ: ہاں!آیاہے،بعض مشائخ اور گزشتہ بزرگوں نے نفل نماز باجماعت پڑھی ہے۔
پھر فرمایاکہ شب برأت کاموقع تھا،شیخ الاسلام شیخ فریدالدین قدس اللہ سرہ العزیزنے مجھے حکم دیاکہ اس رات جونمازپڑھی جاتی ہے اُسے باجماعت پڑھو،اورتم امامت کرو، چنانچہ ایساہی کیاگیا۔‘‘
ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شب برأت میں نوافل پڑھنا،خیروبھلائی کی دعاکرنا،مردوں کے لیے ایصال ثواب اور قبرستان جا کر ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا سنت رسول ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام جنت البقیع تشریف لے جاتے اور وہاں جا کر مسلمان مردوں ،عورتوں اور شہیدوں کے لیے مغفرت کی دعا فرماتے ۔ 


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں