Niyat Se Sawab Hasil Karein

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

نیت سے ثواب حاصل کریں
محمد تقی عثمانی

اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لیے پیدا فرمائی ہے کہ اس کے بندے یہاں رہ کر اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنی آخرت کا سامان کریں اور ایسے کام کریں جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔ لیکن ہم لوگ دنیا کے کاروبار میں لگ کر اس اصلی مقصد سے غافل ہو رہے ہیں۔ ہماری زندگی صبح سے لے کر شام تک اپنی دنیا کو بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی دوڑ دھوپ میں صرف ہو رہی ہے ۔ اس دوڑ دھوپ میں بہت کم اللہ کے بندے ایسے ہیں جنھیں اپنی آخرت کو بہتر بنانے کا خیال آتا ہو، حالانکہ یہ بات طے ہے کہ ایک دن اس دنیا سے جاناہے اور جانے کا وقت بھی کوئی نہیں جانتا، خدا جانے کب بلاوا آجائے۔
اسلام نے آخرت کو بہتر بنانے کے لیے جو طریقے بتائے ہیں حقیقت میں وہ کچھ مشکل نہیں۔بلکہ اگر انسان ان طریقوں کو اختیار کرلے تو اس کی دنیا بھی پرسکون ہو جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے، لیکن آج کل ذہنوں میں یہ بات بیٹھتی جا رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ایک مشکل کام ہے جس کے لیے اپنے بہت سے دنیوی مفادات، بہت سی لذتیں اور بہت سا عیش و آرام قربان کرنا پڑتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اس مشکل کا تصور کر کے اس راہ پر چند قدم چلنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
اول تو اسلامی احکام اپنی ذات میں مشکل نہیں ہے اور جو اللہ کا بندہ ان پر عمل کرنا چاہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد بھی ہوتی ہے۔
دوسرے اگر بالفرض کسی حکم پر عمل کرنے میں کچھ مشقت اور دشواری بھی ہو تو وہ دشواری آخرت کی ابدی اور سرمدی فائدوں کے مقابلوں میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ آخر ہر انسان روزی کمانے کے لیے محنت کرتا ہے اور اس محنت کو پسند بھی کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے روزی ملنے والی ہے ۔ اسی طرح اگر اسلامی احکام پر عمل کرنے کے نتیجے میں آخرت کی وہ نعمتیں ملنے والی ہیں جن کا اس وقت ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تو اس عظیم مقصد کے لیے تھوڑی سی مشقت سے گھبراہٹ کیوں؟
تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی احکام اور تعلیمات میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن پر عمل کرنے میں تھوڑی بہت محنت کرنی پڑتی ہے لیکن بہت سے اعمال اللہ تعالیٰ نے ایسے بھی بتلائے ہیں جن پر عمل کرنے میں نہ کوئی خاص محنت کرنی پڑتی اور نہ بہت سا وقت صرف ہوتا ہے ۔بس ذرا دھیان دینے کی بات ہے ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کو ان نیکیوں کی اجر و قیمت معلوم تھی۔ وہ ان نیک کاموں کے حریص تھے۔ جہاں جس کسی عمل کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے ، فوراً اس پر عمل شروع کر دیتے اور جس عمل کا ثواب ہونا انہیں دیر سے معلوم ہوتا اس پر اظہار افسوس کرتے کہ یہ بات ہمیں پہلے کیوں معلوم نہ ہوئی۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ جو شخص کسی جنازے کی نماز میں شریک ہو،اس کو ایک قیراط(ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے سونے چاندی تولے جاتے ہیں) ثواب ملتا ہے اور جو میت کے دفن ہونے تک جنازے کے پیچھے جائے اسے دو قیراط ملتے ہیں جن میں سے ایک احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمرر ضی اللہ عنہمانے بیساختہ فرمایا کہ ہم نے بہت سے قیراط بلا وجہ ضائع کر دیے۔ (ترمذی)
غرض کہ ہر وہ نیک کام جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب بنے قابل قدر ہے اور خاص کر ایسے نیک کام جنھیں انجام دینے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی ،انھیں صرف بے پروائی اور غفلت کی وجہ سے چھوڑ دینا تو اتنے گھاٹے کا سودا ہے کہ آخرت میں اس کی حسرت ناقابل برداشت ہوگی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے ۔
بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اچھی نیت سے غلط کام بھی ٹھیک ہو جاتاہے اور گناہ بھی ثواب بن جاتا ہے، یہ بات قطعی غلط ہے ۔ گناہ ہر حال میں گناہ ہے، کتنی ہی اچھی نیت سے کیا جائے وہ جائز نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اس نیت سے چوری کرے کہ جو مال حاصل ہوگا وہ صدقہ کروں گا تو اس کی نیت کی وجہ سے چوری کا گناہ معاف نہیں ہوگا۔
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بغور دیکھیں تو اس کاایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی نیک کام پر اس وقت تک ثواب نہیں ملتا جب تک وہ صحیح نیت کے ساتھ نہ کیا جائے، جیسے نماز کا ثواب بھی اسی وقت ملے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پڑھی جائے۔اگر دکھاوے کے لیے نماز پڑھی تو ثواب غارت ہو جائے گا بلکہ الٹا گناہ ہوگا۔
دوسرا مطلب جو ہمارا مقصود بھی ہے ،یہ ہے کہ جتنے کام مباح یا جائز ہیں ان کا اصل حکم تو یہ ہے کہ ان پر نہ ثواب ہوتاہے نہ عذاب۔ لیکن اگر وہ جائز کام کسی اچھی نیت سے کیے جائیں تو عبادت بن جاتے ہیں اور ان پر ثواب ملتا ہے۔ مثلاً کھانا کھانا مباحات میں سے ہے لیکن اگر کوئی کھانا اس نیت سے کھائے کہ اس کے ذریعے میرے جسم کو قوت حاصل ہوگی اور اس قوت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کروں گا تواس کا کھانا کھانا بھی باعث اجر و ثواب ہوگا، یا اس نیت سے کھانا کھائے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے نفس کا بھی مجھ پر حق رکھا ہے ، اس کی ادائیگی کے لیے کھانا کھاتا ہوں، یا اس نیت سے کھائے کہ اس سے لذت وراحت حاصل ہوگی تو دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا تو ان نیتوں کے ساتھ کھانا کھانے میں بھی ثواب ہوگا۔
غرض زندگی کا کوئی مباح کام ایسا نہیں ہے جس کو اچھی نیت کر کے عبادت اور موجب ثواب نہ بنایا جا سکتا ہو۔ اچھی نیتوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
 روزی کمانا خواہ تجارت کی شکل میں ہو یا ملازمت کی شکل میں یا زراعت و صنعت کی شکل میں۔ اس میں اگر انسان یہ نیت کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمے جو میرے نفس اور میرے گھر والوں کے حقوق عائد کیے ہیں یہ کمائی اس کے لیے کر رہا ہوں کہ وہ حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کر سکوں تو حلال روزی کمانے کی یہ ساری کارروائی عبادت اور ثواب بن جائے گی۔ پھر اس میں یہ نیت بھی کر لے کہ اپنی آمدنی کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا اس میں سے غریبوں کی امداد اور دوسرے نیک کاموں پر خرچ کروں گا تو اس نیت سے مزید ثواب ملے گا۔ 

 اگر ایک شخص ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور وہ یہ نیت کر لے کہ میں اس علم کے ذریعے خدمت خلق کروں گا ،مثلاً: کوئی علم دین حاصل کر رہا ہے تو مخلوق کو دین پہنچانے کی نیت کر لے۔ میڈیکل سائنس کا طالب علم ہے تو یہ نیت کر لے کہ ڈاکٹر کے ذریعے مریضوں کی خدمت کروں گا۔ انجینئرنگ کا طالب علم ہے تو یہ نیت کر لے کہ میں اس فن سے ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ کوئی اور ہنر سیکھ رہا ہے تو اس غرض سے سیکھے کہ جو لوگ اس ہنر کے ضرورت مند ہوں گے ان کی حاجت پوری کروں گا تو ان شاء اللہ جتنا وقت وہ تعلیم حاصل کرنے میں گزارے گا اس کو اس نیت کا ثواب ملتا رہے گا۔ 
 پھر انسان جو بھی پیشہ اختیار کرے اس میں یہ سوچے کہ رزق کا ذمہ تو اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، کسی نہ کسی صورت میں ضرور ملے گا اور اس کو حاصل کرنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں فلاں راستہ اس لیے اختیار کر رہا ہوں کہ اس کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت کروں تو یہ پیشہ بھی باعث اجر ہو جائے گا۔
چنانچہ کوئی شخص ڈاکٹر بنتا ہے تو یہ نیت کر لے کہ رزق کے بہت سے راستوں میں سے یہ راستہ میں نے اس لیے منتخب کیا ہے کہ اس کے ذریعے تکلیف میں مبتلا لوگوں کی مدد ہوگی تو خواہ وہ مریضوں سے جائز اور مناسب اجرت اصول کرے تب بھی اس نیت کا ثواب ملے گا۔ کوئی شخص کپڑوں کی تجارت کرنا چاہتا ہے وہ یہ نیت کر لے کہ ہر انسان کے ذمے شرعاً لباس پہننا واجب ہے میں یہ پیشہ اس لیے اختیار کر رہا ہوں کہ اس کے ذریعے مخلوق کو اس واجب کی ادائیگی میں مدد دوں گا تو یہ پیشہ بھی باعث اجر ہوگا۔
اگر کوئی شخص سرکاری ملازم ہے تو اپنی ملازمت میں یہ نیت کر لے کہ اس کے ذریعے مخلوق کی ضروریات کو پوری کرنے کا موقع ملے گا تو خواہ وہ تنخواہ لے رہا ہو اس نیت کا ثواب اسے ملے گا۔
بعینہ اچھا لباس اس لیے پہنے کہ اللہ نے مجھے جو نعمت دی ہے اس کا اثر نظر آئے اور دیکھنے والوں کو فرحت کا احساس ہو۔ اپنے بچوں سے اس نیت کے ساتھ محبت کیا جائے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ گھر کا کام اس نیت سے کیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ بیوی بچوں سے خوش طبعی کی باتیں اس نیت سے کی جائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاہے۔ مہمانوں کی خاطر مدارات اس نیت سے کیے جائیں کہ مہمانوں کا اکرام سنت نبوی اور مومن کے حقوق میں سے ہے۔ گھر میں کوئی پودا اس نیت سے لگائے کہ اس سے کسی جانور کو فائدہ پہنچے گا یا اس کے سائے سے لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔ عورت جائز زیب و زینت اس نیت سے کرے کہ شوہر کو خوشی حاصل ہوگی اور مرد اس نیت سے صاف ستھرا رہے کہ بیوی کو مسرت اور راحت ملے گی ،نیزجائز تفریحات اس غرض سے کیے جائیں کہ اس سے فرائض کی ادائیگی میں پھرتی اور نشاط پیدا ہوگا۔
یہ تمام اعمال باوجود کہ مباحات میں شامل ہیں لیکن اچھی نیت کے سبب انھیں بھی عبادت بنایا جا سکتا ہے اور اجر و ثواب کا حقدار بنا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس عمل کی توفیق بخشے۔(آمین) 

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں