Shah Ehsanullah Muhammadi Safwi

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0


شاہ احسان اللّٰہ محمدی صفوی
علی سعید صفوی
موجودہ ہندوستان میں جن روحانی سلسلوں سے آج بھی مخلوق خدا کی ایک بڑی تعداد وابستہ ہے اور جہاں سے دعوت و تبلیغ اور تزکیۂ نفس کا مقدس فریضہ بڑے پیمانے پر انجام پا رہا ہے،ان میں چشتیہ نظامیہ سلسلہ نمایاں ہے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاںسلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے بزرگوں کی روحانی شعاعیں موجود نہ ہوں۔ ان ہی بابرکت اورفیض رسا سلسلوںمیں ایک ممتاز اور تاریخی خانقاہ صفی پور ضلع اناؤ کی ’’خانقاہ عالیہ چشتیہ نظامیہ صفویہ‘‘ ہے ۔
اس خانقاہ کے مورث اعلیٰ حضرت مخدوم شیخ عبد الصمد عرف مخدوم شاہ صفی علیہ الرحمہ (وفات ۹۴۵ھ) ہیں۔یہ اعلیٰ درجے کے صوفی اورخدا رسیدہ بزرگ تھے۔ بلگرام کے معروف محقق، عالم، صوفی، میر سید عبدالواحد بلگرامی علیہ الرحمہ، مخدوم شاہ صفی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے تربیت یافتہ تھے۔ اسی میخانۂ عرفان کا ایک میکدہ’’خانقاہ عارفیہ‘‘ سید سراواں، کوشامبی (الٰہ آباد) میں بھی آباد ہے، جہاں صبح و شام طریقت و معرفت کے جام پلائے جاتے ہیں۔اس کے روح رواں داعیٔ اسلام شیخ طریقت ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی چشتی ادام اللہ ظلہ علینا  ہیں۔یہ نہ صرف چشتیہ نظامیہ صفویہ کی روحانی وراثت کے سچے امین ہیں بلکہ آج بھی سلف صالحین کی امانت کو عام خلق خدا تک پہنچا رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر ’’میکدۂ چشتیہ نظامیہ صفویہ عارفیہ‘‘ کے ساقی اور کاروان شوق کے سالار ہیں۔
ولادت باسعادت

 شیخ طریقت ۱۹۵۸ء میں الٰہ آباد کے قدیم روحانی قصبہ سید سراواں شریف کے عثمانی گھرانے میں پیداہوئے ۔والد محترم کا نام حکیم آفاق احمد اور والدہ محترمہ کا نام شاہدہ بی بی تھا۔ انھوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے ناموں کو ملا کر شیخ طریقت کا نام ’’شاہد الآفاق‘‘ رکھا اور کنیت ’’ابو سعید‘‘ تجویز کیا۔ شیخ طریقت کی ولادت سے پہلے آپ کے والد حکیم آفاق احمد نے ایک خواب دیکھا کہ سلطان الہند خواجۂ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک نور ان کے قلب میں داخل ہوا، پھر وہی نور ان کی اولاد میں سے کسی ایک کے قلب میں منتقل ہو گیا۔ اس خواب کے چندہی دنوں کے بعد آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔
تعلیم وتربیت
شیخ طریقت نے ابتدائی تعلیم جیسے ناظرۂ قرآن اور اردو کی بنیادی کتابیں وغیرہ گھر میں ہی اپنی خالہ محترمہ اور گھر کے دیگر اسلاف سے حاصل کی۔ جب کہ فارسی زبان علی ظہیر عثمانی علیگ سے پڑھی اور انگریزی جناب درویش نجف علیمی صاحب سے سیکھی۔اس کے بعد ہائی اسکول (High School)لالہ پورضلع الہٰ آبادسے پاس کیا۔پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے۱۹۷۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور P.U.Cپاس کیا اور اس کے بعدفارسی زبان میں بی اے میں داخلہ لیا۔
خلافت وسجادگی
آپ ابھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہی تھے کہ ’’خانقاہ عارفیہ عالیہ‘‘ کے صاحب سجادہ اور آپ کے والد کے چچا حضرت شاہ ریاض احمد ملقب بہ شاہ احمد صفی علیہ الرحمہ نے مسند رشد و ہدایت کے لیے روحانی اشارات کی بنیاد پر آپ کا انتخاب فرمایا ۔ سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی علیہ الرحمہ کے عرس مقدس کے موقع پر ۱۷؍ ذی القعدہ ۱۳۹۸ ہجری مطابق ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۸ کو بعد نماز مغرب بیعت فرمائی اور بعد نماز عشاعرس کی روحانی تقریب میں اجازت و خلافت کے ساتھ سجادگی جیسی اہم ذمہ داری اورعظیم منصب سے سرفراز کیا۔
سفرحج و زیارت
۲۰۰۷ میں پہلی بار حج و زیارت کی غرض سے حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہور ہوئے اوربارگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و مسجد نبوی کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔ اب تک دو حج اور چھے عمرے کی سعادت سے سرفراز ہو چکے ہیں۔
خدمات و کارنامے
سجادگی کاعظیم منصب سنبھالنے کے بعد کچھ برسوں تک خود کوذکرالٰہی اور عبادت الٰہی میں مصروف رکھااوراطراف وجوانب میں وقتاً فوقتاً تبلیغی فریضے بھی انجام دیتے رہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ملک وبیرون ملک میں تبلیغی خدمات کو اپناوظیفہ بنائے ہوئے ہیں ۔
۱۹۹۳ء میں اپنے آبائی وطن سید سراواں،کوشامبی میں ’’جامعہ عارفیہ ‘‘کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم فرمایاجس میں منظم طور پرآج درجہ عا لمیت تک کی تعلیم ہو رہی ہے۔وقت کے پیش نظر دینی تعلیم کے ساتھ ایسا نصاب تیار کیا گیا ہے جس میں عصری علوم کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔یہاں کے فارغین جامعہ ازہر اور دیگر یونیورسٹیز و جامعات میں داخلہ لے کر اس ادارے کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قابل ذکرپہلویہ ہے کہ دینی و عصری علوم کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیم کے ذریعے طلبہ کی بہترین تربیت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں صبح میں بچوں کو جو ترانہ پڑھایا جاتا ہے اس کا واضح ثبوت ہے۔
شاہ صفی اکیڈمی کے تحت سال نامہ’’ الاحسان ‘‘پچھلے دوبرسوں سے شائع ہورہاہے ۔یہ رسالہ علمی اعتبار سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتاہے ۔بالخصوص تصوف کے لحاظ سے یہ رسالہ علمی حلقوں میں کافی پسند کیاجارہاہے ۔
آپ داعیٔ اسلام ہونے کے ساتھ عمدہ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں جس کی مثال ’’دیوان ابوسعید‘‘ اور’’ نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ ہے۔
ان میں انھوں نے اسلامی عقائد و تصوف کو بہت ہی اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ تربیت کی غرض سے شعر کے پیکر میں کہی ہوئی باتیں انمول خزانے کی حیثیت رکھتی ہیں:

ساز ہستی پردۂ الہام ہے
نغمہ تار نفس پیغام ہے
اللہ عز وجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان کے فیوض و برکات کا سلسلہ یوں ہی جاری رکھے ۔آمین

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں